اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمر بھر اپنی زندگی یا زوجہ کی زندگی تلخ کرتے ہیں اور اس ناگواری کا سبب ان کا أَبْغَضُ الْمُبَاحَاتِ( جائز چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ) ہونا نہیں ہے، کیوںکہ وہ ان مصالح وضرورت کے وقت مباحِ مطلق ہے بلا مبغوضیت کے (بالکل جائز، بغیر ناپسندیدگی کے)۔ اور جب اس کا استحباب یا وجوب( مستحب یا واجب ہونا) بعض صورتوں میںثابت ہے اور استحباب ووجوب کا مبغوضیت (مستحب اور واجب کی ناپسندیدگی) کے ساتھ مجتمع ہونا محال ہے (جمع ہونا ناممکن ہے) اور قرآنِ مجید میں نص ہے: {لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ} اور حدیثِ رزین میں ہے کہ حضورﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تھا، پھر ان کے عرض کرنے پر طلاق نہیں دی (کَذَا فِيْ الْمِشْکاۃِ) اسی طرح صحابہ ؓ سے بہ کثرت منقول ہے (کَذَا فِيْ رَدِّ الْمُحْتَارِ) تو پھر علی الاطلاق اس کو مبغوض کیسے کہہ سکتے ہیں؟ بلکہ یہ مبغوضیت اسی صورت میں ہے جب کہ کوئی داعی معتد بہ (قابلِ اعتبار محرّک) نہ ہو، اس وقت بے شک مکروہ ہے۔ (نَقَلَہُ فِيْ الدُّرِّ الْمُخْتَارِ عَنِ الْکَمَالِ)۔ اور حلال ہونا مبغوض کے منافی نہیں، کیوںکہ حلال مکروہ کو بھی شامل ہے، تو حلال کی تفسیر یہ ہوگی: مَا لَیْسَ فِعْلُہُ بِلَازِمٍ الشَّامِلُ لِلْمُبَاحِ وَالْمَنْدُوْبِ وَالْوَاجِبِ وَالْمَکْرُوْہِ۔ کَمَا قَالَـہُ الشُّمُنِّيُّ وَنَقَلَہُ فِيْ ’’رَدِّ الْمُحْتَارِ‘‘ ’’عَنِ الْبَحْرِ‘‘۔ ایسا فعل جس کا کرنا ہی لازم نہ ہو، اس میں مباح ، مستحب، واجب اور مکروہ سب ہی شامل ہیں، جیساکہ شمنی نے کہا اور اسے ’’ردّ المحتار‘‘ نے ’’بحر الرائق‘‘ سے نقل کیا۔طلاق کو حد درجہ معیوب سمجھنے کی عملی خرابیاں : اس درجے میں معیوب سمجھنے پر مفاسدِ عملیہ متفرع ہوتے ہیں( یعنی عملی زندگی میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں) کہ ایسے لوگ اگر کبھی جوشِ غضب میں مغلوب (بے قابو) ہوکر طلاق دے گزرتے ہیں، تب بھی طوقِ عار (شرمندگی) سے بچنے کے لیے اس کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور خواہ شرعاًاس کا تدارک ممکن ہو یا نہ ہو، مگر وہ اس کا قصد کرتے ہیں، چناںچہ اکثر باوجود تین طلاق واقع ہوجانے کے اس کو پھر اپنے گھر بی بی بناکر رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چھوڑنے میں ذ۔ّلت و بدنامی ہے، اور افسوس ہے کہ بدکاری میں ذ۔ّلت وبدنامی نہیں سمجھتے، حالاں کہ اس میں طلاق سے زیادہ ذ۔ّلت وبدنامی ہے، دنیا میںبھی اور آخرت کی رُسوائی وعقوبت (سزا) کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں کہ کس قدر ہوگی، پھر اُن میں جو بد دِین وبے باک (نڈر) ہیں، ان کو تو حرام وحلال کی کچھ پروا ہی نہیں، کھلم کھلا حرام کرتے ہیں، پھر اگر عورت بھی ایسی ہی ہوئی تب تو خوشی بہ خوشی حرام کا کارخانہ قائم رہتا ہے اور اولاد حرام کی