اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ تو بیان تھا ان علمی کوتاہیوں کے متعلق جن کا عین موقع پر صدور ہوتاہے، بعض علمی کوتاہیاں وہ ہیں جن کا صدور قبلِ سفر ہوتاہے، اور بعض ان میں باوجود اَمرِ شرع اس سفر سے مانع ہوجاتی ہیں، اور بعضے باوجود نہیٔ شرع اس سفر پر باعث ہوجاتے ہیں، چناںچہ ہر ایک میں نظر کرنے سے معلوم ہوجاتاہے۔حج کے لیے سفرِ مدینہ ضروری نہیں : ز سو ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعض لوگ سفرِ حج کو اس وقت فرض سمجھتے ہیں جب مدینہ منوّرہ کے سفر کے لیے بھی وسعت ہو، اور اگر اتنا خرچ ہو کہ صرف حج کرسکتا ہے، مدینہ طیبہ نہیں جاسکتا تو یہ لوگ اس حالت میں حج کو فرض نہیں سمجھتے۔ سو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سخت غلطی ہے ، مدینہ طیبہ کا سفر ایک مستقل طاعت ہے، واجب ہو یا مستحب علی اختلافِ الاقوال، خواہ روضۂ منوّرہ کے قصد سے جیساکہ جمہور کا قولِ منصور ہے یا صرف مسجدِ نبوی کے قصد سے جیساکہ بعض قائل ہوئے (اور یہ مقام اس مسئلے کی تحقیق کا نہیں، ’’نشرط الطیب‘‘ کی ستائیسویں فصل کے آخر میں بہ قدر ضرورت اس کولکھ دیا گیا ہے)۔ بہرحال سفرِ مدینہ کی استطاعت پر فرضیت حج کی موقوف نہیں ہے، اگر صرف سفرِ حج کی استطاعت رکھتا ہو، اور سفرِ مدینہ کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کے ذ۔ّمہ حج فرض ہے، اگر نہ کرے گا تو تمام ان وعیدوں کا مورد ہوگا جو ترک ِحج پر آئی ہیں، باقی حج کے بعد اگر کچھ سامان سفرِ مدینہ کا ہوجاوے گا یا پیادہ چلنے کی ۔ّہمت ہوجائے جیسا شوق کے غلبے میں ایسا ہوجاتاہے، تو اس شرف کو بھی حاصل کرے، ورنہ سرِدست واپس آجائے، اور عزم رکھے کہ خداتعالیٰ توفیق دے گا تو مستقل سفرِ مدینہ کا کرلوں گا، اور جب سامان ہوجاوے ایسا کرے بھی، اور اگر عمر بھر بھی سامان نہ ہوا تو اِن شاء اللہ تعالیٰ اس تمنا و عزم کا اجر بھی اس سفر مبارک کے اجر کے قریب قریب ہی ہوگا، جیسا کہ چند حدیثوں سے معلوم ہوتاہے کہ فعلِ خیر کی نیت بھی اجر میں مثل فعلِ خیر ہی کے ہے۔ ز اور ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعض اوقات اس شخص کے پاس مالِ حرام اس مقدار میں جمع ہوجاتاہے کہ حج کو کافی ہو، مگر یہ سمجھتا ہے کہ یہ تو مالِ حرام ہے اس کا حج میںخرچ کرنا اور بھی زیادہ ۔ُبرا ہے، اور مالِ حلال میرے پاس اس قدر ہے نہیں، اس لیے میرے ذ۔ّمہ حج فرض نہیں، اور یہی خیال بعض لوگوںکو زکوۃ میں بھی ہے، پس یہ لوگ نہ حج کرتے ہیں ، نہ زکوٰۃ دیتے ہیں۔