اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیوںکہ اس پر کوئی شبہ بدکاری کا کرے گا، کوئی بد۔ُ خلقی (۔ُبرے اخلاق) کا کرے گا، تو دوسری جگہ اس کا نکاح مشکل ہوگا، تو تمام عمر اس کی مصیبت میں گزرے گی، اس مقام پر مجھ کو ایک عبارت یاد آئی جو میرے ایک دوست نے میرے پاس اس مضمون کے متعلق لکھ کر بھیجی تھی، اس کو نقل کرتاہوں: فِيْ ’’فَتْحِ الْقَدِیْرِ‘‘: ’’فَمِنَ الْحَاجَۃِ الْمَبِیْحَۃِ أَنْ یُلْقَی إِلَیْہِ عَدَمُ اشْتِہَائِہَا بِحَیْثُ یَعْجِزُ، أَوْ یَتَضَرَّرُ بِـإِکْرَاہِہِ نَفْسَہُ عَلٰی جِمَاعِہَا، فَہَذَا إِذَا وَقَعَ، فَإِنْ کَانَ قَادِرًا عَلٰی طَوْلِ غَیْرِہَا مَعَ اسْتِبْقَائِہَا وَرَضِیَتْ بِـإِقَامَتِہَا فِيْ عِصْمَتِہِ بِلَا وَطْئٍ أَوْ بِلَا قَسْمٍ فَیُکْرَہُ طَلَاقُہُ کَمَا کَانَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ وَسَوْدَۃَ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ قَادِرًا عَلٰی طَوْلِہَا، أَوْ لَمْ تَرْضَ ہِيَ بِتَرْکِ حَقِّہَا، فَہُوَ مُبَاحٌ؛ لِأَنَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ‘‘۔ فتح القدیر میں ہے کہ: ’’طلاق کو مباح قرار دینے والی صورت میں سے ایک یہ بات ہے کہ خاوند کے دل میں بیوی کے متعلق عدمِ اشتہا ڈال دیا جائے، اس طرح کہ وہ اپنے آپ کو عورت کے ساتھ جماع کرنے پر مجبور کرنے کے باوجود عاجز ہو یا ایسا کرنے سے اُسے ضرر پہنچے، تو یہ معاملہ جب واقع ہو اگر اس وقت وہ دوسری عورت پر جماع کے لیے قادر ہو اور اگر وہ عورت بغیر وطی یا بغیر نوبت کے اس کے نکاح میں رہنے پر راضی ہو تو پھر اس عورت کو طلاق دینا مکروہ ہے، جیسا کہ آںحضرت ﷺ اور حضرت سودہ ؓ کے درمیان ایسا تھا، اور اگر وہ اپنے حق کو چھوڑنے کے لیے راضی نہ ہو تو طلاق مباح ہے، اس لیے کہ دلوں کو پھیرنے والے ربّ العالمین ہیں۔‘‘بلا ضرورتِ شدیدہ طلاق مانگنا سخت ممنوع ہے : اسی تفریط کے قبیل سے ایک کوتاہی بعض عورتوں کی طرف سے یہ ہوتی ہے کہ ادنیٰ ادنیٰ بات پر شوہر سے طلاق مانگتی ہیں، اس باب میں حدیث میں سخت وعید آئی ہے، چناںچہ ارشاد فرمایا جنابِ رسول اللہﷺ نے: ’’جو عورت بدون کسی ضرورتِ شدیدہ کے اپنے شوہر سے طلاق کی درخواست کرے، اس پر جنت کی خوش بو حرام ہے۔‘‘ روایت کیا اس کو احمد اور ترمذی اور ابوداؤد اور ابنِ ماجہ ودارمی نے۔ (کَذَا فِيْ الْمِشْکَاۃِ)کسی دوسری عورت کے لیے طلاق کی درخواست بھی ممنوع ہے : اور جس طرح اپنے لیے طلاق مانگنا ممنوع ہے، اسی طرح دوسری عورت کے لیے طلاق کی درخواست کرنا، مثلاً: کسی مرد نے اس سے نکاح کی درخواست کی جس کے