اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
أَسْتَعِیْذُ اللّٰہَ مِمَّا یَفْتَرُوْنَ گفت ہر دارو کہ ایشاں کردہ اند آں عمارت نیست ویراں کردہ اند یعنی ہر قسم کی دوا اور علاج کیامگر ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ وہ باطنی حال سے غافل ہیں، اللہ کی پناہ جو وہ جھوٹ بولتے ہیں، کہا کہ انھوں نے ہر قسم کی دواد ارو کی ہے مگر اس بیماری کو ختم نہیں کیا، گویا طبیبوں کے نزدیک یہ مرض لا علاج نہیں ہے۔حضرت حکیم الاُمت ؒ کا نکاحِ ثانی سے اہلیہ کو مطلع نہ کرنے کا سبب : آگے آں عزیز نے لکھا ہے :’’تاہم جس قدر حالات (نام عزیزے) کی تحریر سے معلوم ہوئے، میری ناقص رائے میں اتنی کسر (کمی) رہ گئی کہ ان اُمور کو اوّل اگر بھابھی صاحبہ کے سامنے پیش کردیا جاتا تو شاید ان کو اتنا خیال نہ ہوتا، اب جو ہونے والا تھا ہوگیا۔‘‘ اس کا اگر یہ مطلب ہے کہ ان واقعات کی جوکہ بنائے کار ہیں ان کو خبردی جاتی، سو یہ تو میں چند موقعوں پر کرتا رہا جس کا اُن پر ہمیشہ گہرا اثر ہوا، کیا میں نے ان سے اپنا پہلا خواب نہ کہہ دیا تھا؟ ایک بزرگ کا مکاشفہ متعلق مضمون حضرت عائشہؓ وہ بھی کہہ دیا تھا، باوجودیکہ اُنھوں نے تعبیر میں میرے ساتھ اختلاف کیا، مگر پھر بھی ان پر کئی کئی ماہ تک اثر رہا جس کو دیکھ کر میں نے سچی بات دل کی کہہ دی کہ میرا اس وقت تو بالکل آیندہ کے لیے بھی ارادہ نہیں، یہاں تک کہ میں نے کہا کہ لاؤ میں عمر بھر کے لیے ایسی قسم کھالوں کہ نکاح ہی نہ ہوسکے، لیکن مجھ کو تقدیر کی خبر نہیں، نہ یہ میرے قبضے میں ہے، کہ حق تعالیٰ نے اگر دل کو بدلنا ہے تو بدلنے نہ دوں، اُنھوں نے ایسی قسم کھانے سے اسی بنا پر ہمیشہ منع کیا کہ خدا جانے تقدیر میں کیا لکھا ہے۔ بہرحال اُن کویہ احتمال ہمیشہ ستاتا رہا، اور میں اپنے ارادے کے موافق اطمینان دلاتا رہا، اور واقعی میرا ارادہ کوسوں بھی نہ تھا۔ اور اگر یہ مطلب ہے کہ ارادہ ہونے کے بعد ان کو ارادے کی اطلاع نہ کی، اور بہت سے اہل الرائے بھی یہ کہتے ہیں، سو اس میں میرا یہ خیال ہوا، اب خواہ وہ غلط ہویا صحیح کہ یہ قیامت تک موافقت نہ کریں گی اور صریح مخالفت (کھلی مخالفت) کے بعدپھر مجھ کو مناسب نہ ہوگا، کہ اس میں زیادہ دل شکنی ہے، اور اگر ۔َبلا اطلاع کرلیا تو آخر مجبور ہوکر ساکت وساکن (خاموش) ہوجائیں گی، بس اس خیال سے میں نے اپنے ارادے کی اطلاع نہیں کی، اور بعد کے واقعہ تجدید سے تو یہ صاف ظاہر ہوگیا کہ اطلاع تو کیا، معناً اگر مشورہ واجازت بھی حاصل کرلیتا تب بھی کچھ نفع نہ ہوتا، چناںچہ خود سعی کرنا تو مجھ کو اجازت دینے سے بڑھ کر اس رضا و سکون میں مؤثر ہے، مگر کوئی اس کا اثر ظاہر نہیں ہوا، اب تو آں عزیز کا یہی جملہ تسلی بخش ہوسکتا ہے کہ جو ہونے والا تھا ہوگیا، اس کے ساتھ اتنے اضافے کی اور ضرورت ہے کہ دُعا واِلتجا