اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رمضان نیت بہ اعتقادِ رمضان یعنی بہ نیتِ فرض روزہ رکھا جاتاہے، اور غیر رمضان روزہ رکھنا ممنوع آیا ہے، چناںچہ حدیث نہی عن صوم یوم الشک کا یہی حاصل ہے جس کی لم اور راز یہ ہے کہ حدودِ شرعیہ کی اس میں توہین اور ہتک لازم آتی ہے، گویا شارع ؑ کے نزدیک تو رمضان مثلاً ہفتہ کے دن سے شروع ہوگا، مگر اس شخص کے نزدیک جمعہ ہی سے شروع ہوگیا، حدود کی مزاحمت کے جرم ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ ایک اور بے احتیاطی جو اس سے اَشد ہے، بعض اوقات فی المآل ہوجاتی ہے، وہ یہ کہ مثلاً: اِسی بنائے غیر صحیح پر روزہ شروع کیا، اور ختمِ رمضان پر اتفاق سے اَبر وغیرہ ہوا، تو یہ شخص اکمال ثلاثین کے قاعدے پر (یعنی تیس پورے کرکے) عید کرے گا، اور ممکن ہے کہ وہ عین تیس تاریخ رمضان کی ہو، تو کس قدر سخت بات ہے، اور اس شخص کے اثر سے جتنوں نے عید کی اور ایک ایک فرض ان کا برباد ہوا، سب کا وَبال اس کی گردن پر رہا، اور چوںکہ اپنے نزدیک رمضان پورا کرچکے ہیں، اس لیے اس روز کی قضا بھی کوئی نہ کرے گا، تو سب کے ذ۔ّمہ ایک ایک فرض چڑھا رہا، اور اسی پر موت آگئی۔ پس جب ایسی بے احتیاطیاں اس قبول کرنے میں ہوئیں تو اس قبول کرنے کو احتیاط نہیں کہا جاسکتا، اور بلا وجہ شرعی رَدّ کرنے میں تو بے احتیاطی کا لزوم ظاہر ہے، فرض روزے کا ضائع کرنا لازم آتا ہے، اوریہی خودرائی بعض اوقات ہلالِ عید میں ہوتی ہے، تو وہاں دونوں شقوں میں صریح خرابی ہے، یعنی اگر قابلِ قبول کر ردّ کردیا تو عید کا روزہ رکھوایا جو حرام ہے، اور قابل ردّ کو قبول کرلیا تو رمضان کا روزہ تڑوایا جو اس سے بڑھ کر حرام ہے۔1تار برائے شہادت کیوں معتبر نہیں؟ میں نے بے علموں کو دیکھا ہے کہ محض افواہی خبر سن کر قبول کرلیتے ہیں، ان کو یہ خبر نہیں کہ خبر کی حجت ہونے کی کیا شرائط ہیں؟ کبھی کہیں سے تار آجانے پر اعتبار کرلیتے ہیں، اور ان کو اس کے احکامِ فقہیہ کی اطلاع نہیں جو کہ مخصوص ہیں ۔ُعلمائے محققین ومتقین کے ساتھ، بس بڑا مدارِ استدلال اس کے قبول پر ان کے نزدیک یہ ہے کہ’’ صاحب! لاکھوں روپے کی تجارت تار پر چلتی ہے پھر اس کے اعتبار نہ کرنے کا کیاسبب؟‘‘ لیکن اگر ان سے کوئی پوچھے کہ گواہ کے پاس سمن آنے کے بعد اگر تار پر شہادت ادا کردے تو قانوناً کیوں معتبر نہیں؟ اور معاملاتِ تجارت اور اس شہادت میں کیوں فرق ہے؟ اور اس شہادت میں اور رؤیتِ ہلال کی شہادت میں کیا فرق ہے؟ تو اس کا معقول جواب نہیں دے سکتے۔ اسی طرح میں نے بعض بے علموں کو محض اس بنا