اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی احکامِ شرعیہ کی ناواقفی یا تجاہل سے بعضی ایسی عورتوں سے جوکہ حرام ہیں، نکاح کرلیا جاتاہے، اور بعضی ایسی عورتوں سے جوکہ حلال ہیں، نکاح کرنے کو ناجائز سمجھا جاتاہے، چناںچہ ایک جگہ کا واقعہ خبرِ متواتر سے سنا گیا ہے کہ ایک ۔ّمدعیٔ تحقیق نے اپنی علاتی (سوتیلی) بہن سے نکاح کیا، لوگو ں نے جو ملامت کی کہ یہ تو بہ نصِ قرآنی حرام ہے، کما قال اللّٰہ تعالیٰ: {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہٰتُکُمْ وَبَنٰتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ} 1 تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں۔ توجواب دیا کہ ’’آیت‘‘ میں ’’اَخوات‘‘ سے مراد حقیقی بہنیں ہیں، یہ علاتی بہن کو شامل نہیں۔‘‘ أَسْتَغْفِرُاللّٰہَ مِنَ الْجُرْأَۃِ فِي الدِّیْنِ (میں اللہ تعالیٰ سے دین کے معاملے میں ایسی جرأت کرنے سے پناہ مانگتا ہوں)۔ اگر کسی شخص کو بلا دلیلِ شرعی ایسی تقییدات کا اختیار حاصل ہو تو دوسرا شخص یہ کہہ دے گا کہ ’’علیکم‘‘ میں ضمیر خطاب کی ہے، اور اصل مقتضا خطاب کا مخاطب کا موجود عند التکلم (بولنے کے وقت موجود) ہونا ہے، اور ہم نزولِ آیت کے وقت موجود تھے نہیں، پس اس کے مخاطبِ خاص اسی زمانے کے حضرات ہیں، جن کو یہ خطاب ہی نہیں، اور اس لیے وہ شخص حقیقی بہنوں کو بھی حلال سمجھے، اسی طرح اُمہات و بنات (ماؤں اور بیٹیوں) کو بھی حلال سمجھے، تو اس متجریٔ فی الدین (دین میں جرأت کرنے والے)سے سوال ہے کہ تمہارے پاس اس شخص کے دعوے کے اِبطال کی ایسی کون سی دلیل ہے جو تمہارے فعل کے کرنے والے کے پاس نہ ہو، اگر تمہاری وہ دلیل اس کے مقابلے میں کافی ہے تو تمہارے منکر کی بھی دلیل تمہارے مقابلے میں کافی ہے، اوراگرتمہارے منکر کی دلیل کافی نہیں تو تمہاری دلیل بھی کافی نہیں۔اِجتہاد بالکل عام ہو تو شریعت کا ایک جزو بھی باقی نہیں رہ سکتا : حضرت! اِجتہاد ایسا عام اور اختیاری نہیں ہے، ورنہ شریعت کا ایک جزو بھی باقی نہ رہے، اس کے خاص شرائط ہیں، اس کے خاص محل(مواقع) ہیں، جہاں اجتہادِ مجتہد جامع شرائط کا مقبول ہے، اور اس محل کے غیر میں کسی کا اجتہاد مقبول نہیں، اور محض حرف شناسی (کتابی علم) سے اس کی اہلیت ومعرفت نہیں ہوسکتی : نہ ہر کہ چہرہ بر افروخت دلبری داند