اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے، اور پھر موقع پر بیچ ڈالتا ہے، یہ بھی مالِ تجارت ہوجائے گا، اور زکوٰۃ اس میں واجب ہوگی، اور جس کے خریدنے کے وقت بیچنے کی نیت نہ ہو گو بعد خرید چکنے کے نیت ہوجائے وہ مالِ تجارت نہیں، اس میں زکوٰۃ واجب نہیں۔ اور اسی طرح اگرخریدنے کے وقت تجارت کی نیت تھی مگر حولانِ حول سے پہلے (یعنی جس وقت ختمِ سال پر اس پر زکوٰۃ واجب ہوا کرتی ہے اس ختمِ سال سے پہلے) وہ نیت تجارت کی فسخ ہوگئی ہو وہ بھی مالِ تجارت نہیں رہا، اس میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں۔ اسی طرح اگر وہ مال خریدا ہوا نہیں بلکہ میراث میں پہنچا ہے اور مالک ہوتے ہی تجارت کی نیت کرلی، یا گھر کا غلہ پیدا ہوا ہے، اور تیاری کے وقت نیت تجارت کی کرلی وہ بھی مالِ تجارت نہیں، اور اس میںزکوٰۃ واجب نہیں۔ ز تیسرا مال وہ مویشی ہیں جن کو نسل بڑھانے کے لیے پالا ہو، جیسے بعضے لوگ بکریاں یا گائیں یا گھوڑیاںپالتے ہیں، ان کے احکام وشرائط میں بہت تفصیل ہے، فقہ کی اُردو کی کتابوں میں دیکھ لیا جائے۔ ز چوتھا مال ۔ُعشری زمین کی حقیقت کا حاصل یہ ہے کہ جو زمین اس وقت مسلمان کی ملک میں ہو اس کے قبل اس کا کسی کافر کی ملک میں آنا معلوم نہ ہو، خواہ واقع میں وہ جب سے اہلِ اسلام کی مفتوحات میں داخل ہوئی ہے کسی کافر کے ہاتھ میں نہ پہنچی ہو، خواہ درمیان میں کوئی کافر بھی برائے چندے اس کا مالک ہوگیا ہو، مگر کسی کو معلوم نہ ہو، بس ایسی زمین عشری ہے اس میں جو کچھ پیدا ہو خواہ غلہ ، خواہ نیشکر و چری وغیرہ، خواہ خشخاش یا خواہ تمباکو یا اور ادویہ یا پھول جو بہ غرض نفع بوئے گئے ہوں، یا اس میں باغ کسی قسم کے پھل کا ہو، ان سب میں بھی زکوٰۃ واجب ہے، اس زکوٰۃ کو’’ ۔ُعشر‘‘ کہتے ہیں اور ہندوستان میں اس سے بڑی غفلت ہے، ان کی دو قسموں کے مال میں چالیسواں حصہ واجب ہوتا ہے، اور تیسری قسم میں بہت تفصیل ہے جو فقہ کی اُردو کی کتابوں میں ملے گی، اور چوتھی قسم میں بارانی زمین میں دسواں حصہ کل پیداوار کا، اور چاہی اور نہری میں بیسواں حصہ کل پیدا وار کا ہے۔زکوٰۃ کے حساب میں غلطیاں : ۴۔ ایک کوتاہی یہ ہے کہ اپنے نزدیک حساب سے دیتے ہیں، مگر واقع میں وہ حساب غلط ہوتاہے، مثلاً: مالِ تجارت میں اپنی خرید یا لاگت کا حساب لگالیتے ہیں، فرض کیجیے کہ ایک شخص نے کچھ کتابیں تاجرانہ نرخ سے خریدیں، یا اپنے پریس میں چھاپیں، اور ہزار روپے میں اس کو پڑ گئیں، مگر بازار میں وہ دو ہزار کی ہیں تو زکوٰۃ دو ہزار کی دینا چاہیے، اور اگر دو ہزار کی زکوٰۃ تو زکوٰۃ پچاس روپے دیتے ہوئے دل دکھے تو سہل یہ ہے کہ خود کتابوں کا چالیسواں حصہ دے دے، مثلاً: چالیس ہدایہ میں سے ایک ہدایہ دے دے، یا ایسی کتاب دے دے جس کی ہدایہ کے برابر قیمت پر نکاسی ہوتی ہو۔