اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسرے حساب سے دوم ہومگر بروئے قواعد فلاں فلاں روزہ اسی سے شروع کرنے کا حکم دیا جاتاہے، اور روزہ شروع کرنے کی تاریخ کو ہماری اصطلاح میں یکم کہا جائے گا، اور لغت واصطلاح کا تطابق ضروری نہیں۔ جیسا اہلِ حساب تاریخ کو طلوع سے شروع کرتے ہیں، اور اس کو کوئی محلِ اعتراض نہیں سمجھتا، یہاں تک رؤیتِ ہلال کے متعلق کلام ہوچکا۔صوم روزے میں تفریط کرنے والوں کا ذکر : اس میں چند کوتاہیاں کی جاتی ہیں: ۱۔ ایک یہ کہ بعض تو بلا کسی وجہ قوی یا ضعیف کے روزہ نہیں رکھتے، میں نے ایک شخص کو دیکھا تھا جس نے عمر بھر کبھی روزہ نہیں رکھا تھا، پھر ان میں بعض تو کم ۔ّہمت ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے روزہ پورا نہ ہوسکے گا، چناںچہ وہ شخص اسی بلا میں مبتلا تھا، میں نے کہا کہ تم بہ طور امتحان ہی رکھ کر دیکھو، چناںچہ رکھا اورپورا ہوگیا، اورپھر اس کی ۔ّہمت بندھ گئی، اور رکھنے لگا۔ کیسے افسوس کی بات ہے کہ رکھ کر بھی نہ دیکھا اور پختہ یقین کر بیٹھا تھا کہ کبھی رکھا ہی نہ جائے گا۔ یہ لوگ سوچ کر دیکھیں کہ اگر طبیب کہہ دے کہ آج دن بھر نہ کچھ کھاؤ نہ پیو، ورنہ فلاں مرضِ ۔ُمہلک پڑجائے گا، تو اس نے تو ایک ہی دن کے لیے کہا ہے، یہ شخص دو دن نہ کھائے گا کہ احتیاط اسی میں ہے ، افسوس ہے کہ خدا تعالیٰ دن، دن کا کھانا پینا چھڑادیں، اور کھانے پینے سے عذابِ ۔ُمہلک کی وعیدیں فرمادیں، اور قولِ طبیب کے برابر بھی اس کی وقعت نہ ہو، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ ۲۔ اور بعض ان سے بھی بد تر بد عقیدت ہیں کہ روزے کی ضرورت ہی میں ان کو کلام ہے، پھر بعضے تو ان میں ۔ّمہذب ہیں، کہتے ہیں کہ ’’روزہ جس غرض سے مشروع ہوا تھا کہ قوّتِ بہیمیہ منکسر ہوجائے، وہ غرض ہم کو بہ دولت علم وتہذیب کے حاصل ہے، اس لیے اب روزے کی ضرورت نہیں۔‘‘ ان کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو تم کو اس غرض کا حاصل ہونا مشاہدے کے خلاف ہے، قوتِ بہیمیہ کے آثار فخر و تعلی و ظلم و قساوت جس قدر تم میں ہیں، دوسروں میں اس کا ۔ُعشرِ۔َ عشیر بھی نہیں، دوسرے اگر غرض حاصل بھی ہوجائے تب بھی