اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیکڑی سے باز نہیں آتیں، بلکہ ان کی حالت پہلے شخص سے بھی زیادہ منکر ہے، کیوںکہ اس نے تو صرف اپنا ہی نقصان کیا تھا، اس نے ایک بے گناہ بچے کو بھی ضرر پہنچایا، سو کسی کو ضرر پہنچانا پھر وہ بھی بچہ، یہ حقوق العباد کی کس درجے کی فرد ہے؟ اور ان سب صورتوں سے بڑھ کر اِفراط یہ ہے کہ بعضوںکو بہت چھوٹے، کم سمجھ، ناتواں بچے کو روزہ رکھوانے کا شوق ہوتا ہے، کچھ تو خود اس روزہ رکھوانے کا فخر ہوتاہے اور کچھ روزہ کشائی میں حوصلے نکالنے کا ارمان ہوتاہے، سو اوّل تو مبنی ہی اس کا فاسد ہے، پھر {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط} 1 (اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجایش ہوتی ہے)۔ کی مخالفت، پھر اس پر بعض عوارض ایسے مرتب ہوجاتے ہیں کہ معصیت میں تضاعف ہوجاتا ہے۔حسرت ناک ماجرا : مجھ کو ایک جگہ کا قصہ معلوم ہے کہ اسی طرح کے ایک بچے کو روزہ رکھوایا،اور اپنی اِمارت اُچھالنے کے لیے روزہ کشائی کا بہت زیادہ اہتمام کیا، گرمی کے بڑے اور کڑے دن، عصر کے وقت تک جوں توں کرکے اس نے کھینچا آخر طاقت طاق ہوگئی اور صبر و توان نے جواب دے دیا، ٹھنڈے پانی کے مٹکے بھرے رکھے تھے، ان پر ترکپڑا لپٹا تھا، برف گھولنے کا سامان ہورہا تھا، اس سارے سامان نے آگ بھڑکادی، ایک ایک سے خوشامد پانی کے لیے کرتا تھا، لیکن اگر پانی دیتے تھے تو روزہ کشائی کا سامان اکارت ہوجاتاہے، اپنا سامان بچانے کے لیے پانی کو جواب دے دیا، آخر سخت بے تاب ہوکر دوڑ کر ایک مٹکے کو جا لپٹا، اور محبوب سے وصل ہوتے ہی رُوح نے قالب کو چھوڑدیا، اس کی نعش زبانِ حال سے سرایاں تھی کہ ’’لو بھئی! تم کو تمہارا سامان مبارک رہے، ہم اپنی جان تمہارے سامان پر فدا کرتے ہیں۔‘‘ کسی قدر حسرت ناک ماجرا ہے، یہ نتیجہ ہے غلو اور افراط کا، آخر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے بے معنی تو نہیں: {لَا تَغْلُوْ فِیْ دِیْنِکُمْ}2 (تم دین میں غلو نہ کرو)۔ کیا اس ہلاک اور قتل کی نسبت گو تسبباً سہی ان ظالموں کی طرف نہ ہوگی؟ غرض تفریط اور اِفراط دونوں مذموم ہیں، شرع نے دونوں سے روکا ہے، اور ان حدود کا علم بدون صحبت واستفسار وصحبت ۔ُعلما کے نہیں ہوتا، پس ان سب کا علاج یہی ہے۔روزہ محض نام کا :