اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو حقیر سمجھتے ہیں، حالاں کہ نسب کوئی فخر کی بات نہیں، البتہ حق تعالیٰ کی نعمت ہے جس پر شکر کرنا چاہیے، نہ کہ کبر وتحقیر (تکبر اور دوسروں کو حقیر سمجھنا) جوکہ پوری ناشکری ہے، خصوصاً جب کہ خود اس پر کوئی دلیل کافی نہیں کہ یہ مفتخرین (فخر کرنے والے) جس جد (دادا) کی طرف انتساب (منسوب ہونے) کادعویٰ کرتے ہیں وہ دعویٰ صحیح بھی ہے، بلکہ بعض قرائن (دلائل) سے اس کے خلاف کا شبہ ہوتا ہے، چناںچہ ایک شبہ احقر نے بعض بڑے بڑے مجامع (جلسوں) میں جہاں ایسے حضرات کا اجتماع تھا بیان کیا، وہ یہ کہ اکثر جگہ لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ چند صحابہؓ کی طرف اپنے کومنسوب کرتے ہیں، مثلاً: حضراتِ خلفائے اربعہ، حضرت عباس، حضرت ابو ایوب انصاری ؓ ۔ہندوستان کے نسب ناموں میں ایک قوی اشکال : اب خلجان(شبہ) اس میں یہ ہے کہ ہندوستان میں فتوحات وغزوات کے لیے خاص ان ہی حضرات کی اولاد منتخب ہوکر آئی یا اوروں کی نسل منقطع ہوگئی، اور یہ دونوں امر عادتاً مستبعد (ناممکن) ہیں، اس سے صاف یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید دوسروں نے ان ہی حضرات کی طرف افتخار (فخر کرنے) کے لیے منسوب کردیا ہے، تو ایسے شبہ کے ہوتے ہوئے اس قدر فخر کرنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟1شرافتِ نسبیّہ کا شریعت نے اعتبار کیا ہے : ایک کوتاہی اس کے مقابلے میں بعض لوگوں میں یہ پائی جاتی ہے کہ وہ لوگ عرفاً شریف نہیں ہیں، مگر زبردستی اپنے کو اصطلاحی شریفوں میں داخل کرتے ہیں اور اپنے لیے نسبِ غیر معروف وغیر ثابت بالدلیل کا محض مجازفت ( تخمینہ اور اَٹکل) سے دعویٰ کرتے ہیں، حدیث میں ایسے ۔ّمدعی (دعویٰ کرنے والے) پر لعنت آئی ہے، ان عرفی غیر شریفوں میں سے بعض نے اپنے اُوپر ایک اور طریق سے یہ دھبّا دھونا چاہا ہے، وہ یہ کہ شرافتِ نسبیّہ ہی کی ۔ِسرے سے نفی کرنے لگے، کہ سب بنی آدم برابر ہیں، کسی کو کسی پر نسباً شرف نہیں، سو اس کا اگر یہ مطلب ہے کہ ایسا شرف نہیں جس پر دنیوی فخر کیا جائے، یا اس کو اُخروی نجات میں کچھ دخل ہے، تو تو ٹھیک ہے، اور اگر یہ مطلب ہے کہ شرفِ نسب میں تفاوت(فرق) کا بالکلیہ کسی حکم میں اعتبار نہیں، تو محض غلط ہے، خود شریعت نے نکاح میں کفاء ت کا اعتبار کیا ہے، امامتِ کبریٰ میں قریشیت کو شرط ٹھہرا یا ہے، امامتِ صغریٰ میں اشرفیتِ نسبیہ (خاندانی شرافت) کو مر۔ّجحات (ترجیح ہونے) میں سے کہاہے۔