اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں، ان کی رعایت کرنے سے اپنا یہ نفع ہے۔ اور غور کرنے کے قابل بات ہے کہ اگر اُستاد بھی اسی قاعدے پر عمل کرے کہ تعلیمِ واجب سے زیادہ ایک حرف نہ بتلادے، ایک منٹ زیادہ نہ دے، تقریر ایک بار سے زیادہ ہرگز نہ کرے، تو کیا اس طرح سے اس کو علم حاصل ہوسکتا ہے؟ وہ بے چارہ اس کی تعلیم وتفہیم میں واقعی خونِ جگر کھاتا ہے تو اس کو کیا زیبا ہے کہ اس کے حقوق میں ضابطے سے ایک اُنگل نہ بڑھے، یہ تو ۔ِنری بے حسی وقساوت ہے۔کتابوں کا مطالعہ کرنا بھی اُستاد کے حقوق میں داخل ہے : اور بعض ایسے موٹے موٹے حقوق کی تو رعایت کرتے ہیں لیکن ایسے حقوق میں کوتاہی کرتے ہیں جن کے سمجھنے میں سلیقے کی ضرورت ہے، مثلاً: مطالعہ کم دیکھنا جس سے یا عبارت پڑھنے میں غلطیاں ہونے سے یا مقام کے کم سمجھنے کے سبب اُستاد کو کئی بار تقریر کرنے کی ضرورت واقع ہونے سے یا اسی کم سمجھنے کے سبب فضول سوال کرنے سے اُستاد کو تنگی وانقباض وپریشانی ہو تو کیا محسن کا یہی حق ہے کہ اس کو بلا ضرورت پریشان کیا جاوے اور یہاں بلا ضرورت ہی ہے، کیوںکہ مطالعہ کے اہتمام سے یہ سب خلجانات رفع ہوسکتے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مطالعہ دیکھنے سے پھر عبارت میں غلطی یا فہمِ مطالب میں کمی نہیں ہوتی، ضرور پھر بھی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اُستادوں کو ایسی بصیرت عطا فرمائی ہے کہ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اس نے اپنی کوشش ۔َصرف کی ہے یا نہیں؟ پس باوجود بذلِ جہد کے جو کمی رہ جاتی ہے وہ چوںکہ اس کی وسعت سے خارج ہے اس سے طبعاً تنگ دلی نہیں ہوتی، اس میں اس شاگرد کو معذور سمجھا جاتاہے، اور بے پروائی اور سستی معلوم ہونے سے بے حد ناگواری ہوتی ہے۔اُستاد کی تقریر کے وقت اِدھر ُادھر نہیں دیکھنا چاہیے : اور مثلاً: اُستاد کی تقریر کے وقت دوسری طرف التفات نہ کرنا کہ اُستاد تو اس کی طرف متوجہ اور یہ دوسری طرف متوجہ، اس سے اُستاد کو بہت کوفت ہوتی ہے، خصوص ایسی حالت میں جب کہ کوئی سوال بھی کرے ایساکہ اگر توجہ سے تقریر سنتا تو پھر یہ سوال ہی نہ کرتا، اس وقت اُستاد کو سخت شکایت ہوتی ہے کہ ناحق ہی مجھ کو پریشان کررہاہے۔