اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوگی کہ اس نے علومِ دینیہ کا پورا اثر نہیں لیا۔دین صرف نماز روزے ہی کانام نہیں ہے : یعنی دین کے اہم اجزاء ۔ّمتعدد ہیں: عقائد واعمال و معاملات و معاشرت و اخلاقِ باطنہ، بعضے لوگ صرف نماز روزے کے احکام کے جاننے کو ’’علمِ دین‘‘ اور احکام کی پابندی کرنے والے کو ’’دین دار‘‘ لقب دیتے ہیں، سو خود یہی غلط ہے، سب اجزائے مذکورہ کے احکامِ ضروریہ کا اچھی طرح جاننا ’’علمِ دین‘‘ اور سب کی پابندی ’’دین داری‘‘ ہے۔ سو جس کو ’’دین دار‘‘ لقب دے کر قلیل التہذیب قرار دیا گیا ہے وہ واقع میں سب اجزائے دین کا مستوجب نہیں اور کلام اس میں ہے جس نے سب اجزاء کا اثر لیا ہو، پس وہ شبہ رفع ہوگیا، بندہ نے اس قسم کے شبہات کے جواب کے لیے رسالہ ’’حقوق العلم‘‘ لکھا ہے، (جو قابلِ ملاحظہ ہے)۔ غرض تہذیب علمِ دین کے برابر کسی علم سے حاصل نہیں ہوسکتی، یہی علمِ دین تو تھا جس نے سلف میں اپنے اثر سے وہ اخلاق وشائستگی پیدا کی کہ خود یورپ کو بھی اس کا اعتراف، بلکہ اس سے اغتراف بھی ہے، مگر ہم اپنے گھر کی دولت سے بے خبر ہوکر دوسروں سے اس کی در۔ُیوزہ گری کررہے ہیں، ولِلّٰہ درّ العارف الرومي حیث قال: یک ۔َسبد پرنان ترا بر فرق سر تو ہمیں جوئی لبِ نان در بدر تابزانوئی میان قعرِ آب وزعطش وزجوع گشتستی خرابلڑکیوں کے لیے آزاد اور بے باک اُستانی مقرر نہیں کرنی چاہیے : بعضے آدمی اپنی لڑکیوں کو آزاد، بے باک عورتوں سے تعلیم دلاتے ہیں، یہ تجربہ ہے کہ ہم صحبت کے اخلاق وجذبات کا آدمی میں ضرور اثر ہوتا ہے، خاص کر جب وہ شخص ہم صحبت ایسا ہو کہ متبوع اور معظم بھی ہو، اور ظاہر ہے کہ اُستاذ سے زیادہ ان خصوصیات کا کون جامع ہوگا؟ تو اس صورت میں وہ آزادی وبے باکی ان لڑکیوں میں بھی آوے گی۔ اور میری رائے میں سب سے بڑھ کر جو عورت کاحیا اور انقباضِ طبعی ہے اور یہی مفتاح ہے تمام خیر کی، جب یہ نہ رہا تو اس سے پھر نہ کوئی خیر متو۔ّقع ہے، نہ کوئی شر مستبعد ہے، ہر چند کہ إذَا فَاتَکَ الْحَیَائُ فَافْعَلْ مَاشِئْتَ حکم عام ہے، لیکن میرے نزدیک مَاشِئْتَ کا عموم نساء کے لیے بہ نسبت رجال کے زیادہ ہے، اس لیے کہ مردوں میں پھر بھی عقل کسی قدر مانع ہے اور عورتوں میں اس کی بھی کمی ہوتی ہے، اس لیے کوئی مانع ہی نہ