اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نکاح کس صورت میں سنت ہے اور کون سی صورت میں ممنوع ؟ اور اگر ضرور کا درجہ نہیں لیکن قدرت ہے ادائے حقِ زوجہ پر، تب بھی سنت ہے، البتہ اگر اندیشہ ہے بی بی کے حق ادا نہ کرسکنے کا خواہ حقِ نفس ، خواہ حقِ مال تو ایسے شخص کے لیے البتہ نکاح کرنا ممنوع ہے۔صرف ضرورت ہو اور وسعت نہ ہو تب بھی نکاح واجب ہے : اوراگرضرورت ہو اور وسعت نہ ہو، اس میں اقوال مختلف ہیں۔ احقر قولِ وجوب کو راجح (افضل) سمجھتا ہے، اور وسعت کا تدارک محنت مزدوری یا قرض سے کرلے، جس کے ادا کی نیت مصمّم (پکی) رکھے، اور ادا کی کوشش بھی کرے، اور اگر اس پر بھی ادانہ ہوسکا تو اُمیدہے حق تعالیٰ اس کے مخاصِم (قرض خواہ) کو راضی فرمادیں گے، کیوںکہ اس نے دین کی حفاظت کے لیے نکاح کیا تھا، اس میں مقروض ہوگیا تھا، مگر فضولیات کے لیے یہ قرض جائز نہیں، بلکہ صرف نان نفقہ کے لیے یا مہر کے لیے جہاں کہیں مہر کلاً یا بعض (پورا یا اس کا کچھ حصہ) فوراً لیا جاتا ہو، بہرحال اس مقام پر کلام اس میں ہے کہ جب ضرورت اور وسعت دونوں ہوں تو نکاح واجب یا فرض ہوگا، پھر بھی بعض لوگ نہیں کرتے، جس کے اسباب مختلف ہیں۔نکاح کا ترک فی نفسہٖ عبادت نہیں : بعض تو نکاح نہ کرنے کو قربت و عبادت سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ اعتقاد رہبانیت اور بدعت فی الدین (دین میں نئی بات گھڑنا) ہے، اصل عمل مامور بہٖ شرعاً (جس عمل کا شریعت نے حکم دیا ہے) نکاح ہی ہے، تو اس کا ترک فی نفسہٖ عبادت نہیں ہوسکتا، جیسا کہ ظاہر ہے، اور بعضے بیوی کے مرنے سے بد دل ہوکر بزعمِ خود تارکِ دنیا بنتے ہیں، بہرحال یہ دونوں ترکِ دنیا کا قصد کرتے ہیں، ایک ابتدا ہی سے، اور ایک بی بی کی وفات کے بعد سے۔حالتِ ضرورت میں عدمِ نکاح سے فتنِ کثیرہ میں مبتلا ہوگا : حالاں کہ جب حالت ضرورت کی ہے تو ترکِ نکاح سبب ہوجائے گا فتنِ کثیرہ (بہت سے فتنوں) کا، چناںچہ وساوس وخطرات کا ہجوم جو عبادات میں حلاوت و طمانینت (لذت اور