اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
والے) کو بہت سختی کے ساتھ روکا، اور کہہ دیا کہ اگر وہ لڑکی بالغ ہے تب تو گو بھائی کے بعد استیذان (بھائی کی اجازت حاصل) کرنے سے نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن حمیت ومصلحت (غیرت اور مصلحت) کے خلاف ہے کہ شریفہ کو فراش (بیوی) بنایا جاتاہے دنی (کم مرتبے والے) کا، نیز اکثر ایسے موقع پر عورت کی نظر میں زوج (خاوند) کی وقعت بھی نہیں ہوتی، جس سے تمام مصالحِ نکاح فوت ہوجاتے ہیں، اور اگر وہ نابالغ ہے تو چوں کہ نکاح کرنے والا باپ اور دادا نہیں اس لیے یہ نکاح منعقد ہی نہ ہوگا۔ (کذا في الدّر المختار وردّ المحتار ۲؍ ۵۰۰) چناںچہ بفضلہ تعالیٰ ایک ۔ّمدت کے بعد دونوں اس خیال سے باز آگئے، البتہ اگر نکاح کرنے والا باپ یا دادا ہو تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔عجمی عالم بھی عربیہ کا کفو نہیں : چناںچہ ابھی تازہ ایک واقعہ ہوا ہے کہ ایک غریب شیخ زادہ نے اپنی نابالغ دختر کا نکاح ایک ذی وسعت عجمی النسل مگر دین دار شخص کے فرزند سے کیا ہے، اور گو بعض نے عجمی عالم کو عربیہ کا کفو کہا ہے، مگر درّ مختار میں تصریح ہے: اَلْعَجَمِيُّ لَا یَکُوْنُ کُفْؤًا لِلْعَرَبِیَّۃِ وَلَوْ کَانَ الْعَجَمِيُّ عَالِمًا أَوْ سُلْطَانًا، وَہُوَ الْأَصَحُّ۔ ’’فَتْحُ‘‘ عَنِ ’’الْیَنَابِیْعِ‘‘۔ وَادَّعَی فِي ’’الْبَحْرِ‘‘ أَنَّہُ ظَاہِرُ الرِّوَایَۃِ۔ (۲/۵۲۹) عجمی مرد عربی عورت کا کفو نہیں ہوسکتا، اگرچہ وہ عجمی عالم اور بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، اور یہ زیادہ صحیح ہے جسے ’’فتح القدیر‘‘ نے ’’ینابیع‘‘ سے نقل کیا ہے اور ’’البحر الرائق‘‘ میں اسی کو ظاہر الروایہ قرار دیا ہے۔کفو کا اعتبار مرد کی جانب سے ہوگا، عورت کی جانب سے نہیں : اور بعض نے اس اِفراط وتفریط کے درمیان بزعمِ خود (اپنے گمان کے مطابق) ایک معتدل فیصلہ اختراع (وضع) کیا ہے، وہ یہ کہ کم ذات کو خواہ لڑکی دے دے مگر کم ذات کی لڑکی لے نہیں، اور اپنے ذہن میں اس کا مبنیٰ ایک نکتہ نکالا ہے، وہ یہ کہ اگر کم ذات کی لڑکی آئی اور اس سے اولاد ہوئی تو اپنے خاندان کی نسل بگڑتی ہے، اور اگر کم ذات کے گھر لڑکی چلی گئی تو اس کی نسل سنورتی ہے۔ اس شخص نے خود حکم میں بھی اور اس کی بنا میں بھی شریعت کے ساتھ مزاحمت کی ہے، حکم میں یہ مسئلۂ فقہ ہے کہ