اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پڑھتاہے؟ بلکہ اس سے بھی مختصر کردینے پر نظر ہوتی ہے، اگر آخرِ سال میں پانچ پارے جلالین کے رہ جائیں تو کیا آیندہ سال یا پھر کسی موقع پر اس کو پڑھتے ہیں؟ یا مرمار کر جلالین ہی ختم کرلی، تو کیا تمام ضروری مضامین پر اس سے عبورہوگیا؟ کیا مدارک یا ابوالسعود یا پوری بیضاوی1 میں کوئی مضمون جلالین سے زائد نہیں ہے، پھر اس کو کوئی پڑھتا ہے؟ میں سچ کہتا ہوں اگر جلالین بھی درس میں نہ ہوتی تو اس کو کوئی بھی نہیں پڑھتا، اور جلالین پڑھی تو کیا پڑھی؟ اس کو ختم کرکے اتنی استعداد بھی تو نہ ہوئی کہ اگر بدون جلالین کے خالی غیر مترجم قرآن ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے کہ ایک رکوع کا ترجمہ اور ضروری حل کردو، تو اسی کو حل کرسکیں؟ ہرگز نہ کرسکیں گے، ہاں! جلالین منگاکر دے دو تو کچھ دال دلیا کرلیں گے، اس سے ثابت ہوا کہ قرآن کے معنی مقصود حاصل کرنے نہ تھے، بلکہ جلالین مقصود تھی، پھر کیا اس کو شوق ورغبتِ قرآن کہا جاسکتاہے؟ میری رائے میں خاص اس جزو کا کہ بدون جلالین کے مطلبِ قرآن نہ بیان کرسکیں گے۔اہلِ مدارس کو مشورہ : تدارک یہ ہے کہ اہلِ مدارس طرزِ تعلیم میں کچھ ترمیم کریں، جیسے بعضی متون بدون شرح کے پڑھائی جاتی ہیں، اسی طرح جلالین سے پہلے قرآنِ مجید بھی بدون کسی خاص تفسیر کے زبانی حل کے ساتھ پڑھایا جایاکرے۔1 یا تو پورا قرآن پہلے پڑھادیا جائے، یا ایسا کریں کہ مثلاً ربع پارہ اوّل خالی قرآن میں پڑھادیاپھر اسی قدر جلالین پڑھادی، اور مدرّس اپنی سہولت کے لیے خواہ جلالین پاس رکھیں یا اور کوئی مبسوط تفسیر، توطلبا کو اسی طرح پڑھنے میں، اسی طرح یاد کرنے کی اور مطالعہ کرکے حل کرنے کی عادت پڑجائے گی۔ پس اس جزو کا بہت آسانی سے تدارک ہوجائے گا، چوںکہ جلالین میں جمیع فنونِ تفسیر مذکور نہیں۔ اس لیے کم از کم ’’اتقان‘‘ کو ضرور داخلِ درس کیا جائے۔ یہ بیان تھا بدرغبتی کی کوتاہی کا۔معانیٔ قرآن میں رغبت کرنے والوں کی بے پروائی : ساتویں کوتاہی ان کی ہے جن کو معانیٔ قرآن کی کسی درجے میں رغبت ہے، مگر کوتاہی یہ ہے کہ وہ بدون اس کے، کہ کسی اُستاد سے یہ فن حاصل کیا ہو یا دوسرے علومِ عالیہ ودرسیہ پڑھے ہوں، اُردو کاکوئی ترجمہ یا تفسیر خرید کر (گومصنف کامعتبر ہونا بھی محقق نہ ہو یا اس میں احتیاط ہی کرلی ہو) بہ طورِ خود اس