اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بچے کے دودھ پی کر قے کرلینے سے حرمتِ رضاع زائل نہیں ہوتی : من جملہ اُن کے ایک غلطی یہ ہے کہ بعضے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بچہ دودھ پی کر فوراً قے کر ڈالے تو حرمتِ رضاع بھی زائل ہوجاتی ہے، مجھ کو اس غلطیٔ عوام کی پہلے اطلاع نہ تھی، مگر مجھ سے ایک واقعے میں استفتا کیا گیا (فتویٰ پوچھا گیا) تو میرے حرمتِ رضاع کے حکم بتلانے پر سائل نے یہ معارضہ کیا کہ ’’صاحب! اس بچے نے اوّل تو پیا تھا بہت قلیل اور پھر وہ اُگل دیا تھا، تو گویا وہ پینا باطل ہوگیا، تو حکم بھی ثابت نہ ہوگا۔‘‘ اُس وقت معلوم ہوا کہ بعض کا یہ بھی خیال ہے۔ سو خوب سمجھ لیا جائے کہ اس باب میں قلیل وکثیر (کم، زیادہ) کا ایک حکم ہے، اگر ایک قطرہ بھی حلق کے اندر چلا جائے گا تو حکمِ رضاع ثابت ہوجائے گا۔ (فِي الدُّرِّ الْمُخْتَارِ: وَإِنْ قَلَّ) اسی طرح اگر حلق میں جانے کے بعد قے بھی ہوجائے تب بھی حکمِ رضاع بدستور باقی رہے گا۔ (وَقَدْ مَرَّ أَیْضًا حَیْثُ مَرَّتِ الْمَسْئَلَۃِ الْأُوْلٰی مِنْ ہٰذَا الْبَابِ)حرمتِ رضاع جن جن صورتوں میں واجب ہوگی : اور خواہ منہ کے راستے سے جائے یا ناک کے راستے سے اور خواہ خالص دودھ جائے یا کسی دوا یا پانی میں ملا ہوا جائے اور ملنے کی صورت میں خواہ غالب ہو یا دوسری چیز کے ساتھ مساوی (برابر) ہو، سب کا ایک حکم ہے۔ (کَذَا فِيْ الدُّرِّ الْمُخْتَارِ) یہ تو علمی غلطیاں تھیں۔بچوں کو دودھ پلانے سے متعلق عملی کوتاہیاں شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو دودھ نہیں پلانا چاہیے : اور اس باب میں عملی کوتاہیاں بھی ہیں، من جملہ اُن کے ایک یہ ہے کہ بعضی عورتیں (ایسی ہوتی ہیں) کہ جس بچے پر رحم آیا اس کو دودھ پلادیا، حالاںکہ بلا اِذن شوہر کے کسی کو دودھ پلانا مکروہ ہے، البتہ اگر بچے کے ہلاک ہوجانے کا اندیشہ ہو، وہ حالت اس سے مستثنیٰ ہے۔ (کَذَا فِيْ الْبَحْرِ مِنَ الْخَانِیَّۃِ، شَامِيْ: ۲؍۶۶۴)