اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں کافی ہے، وہ ہے جس کو فقہا نے ذکر فرمایا ہے کہ عورت کو حالتِ حیض میں بھی مستحسن ہے کہ نمازوں کے اوقات میں وضو کرکے مصلّٰی پر جا بیٹھے اور تھوڑی دیر تسبیح وتہلیل میں مشغول رہے، اس سے وہ عادت محفوظ رہتی ہے اور جو سستی ترکِ عادت کے سبب ہوسکتی ہے وہ نہیں ہوتی۔بے نمازیوں کا بہانہ : بعضے بے نمازیوں کا عذر شرعی پیرایہ لیے ہوئے ہے ، کہتے ہیں کہ ’’نماز بدون حضورِ قلب کے ہوتی ہی نہیں اور حضورِ قلب ہم سے ہو نہیں سکتا، اس لیے نماز ہی چھوڑدی۔‘‘ درحقیقت اس استدلال میں انھوں نے خلط وتلبیس سے کام لیا ہے، کیوںکہ جس حضورِ قلب پر نماز کی صحت یا کمال موقوف ہے وہ اور ہے، اور جو ہمارے امکان سے خارج ہے وہ اور ہے، تو دونوں ۔ّمقدموں میں حدِ۔ّ اوسط (علم ِمنطق کی ایک اصطلاح) مکر۔ّر نہیں، لہٰذا یہ استدلال غلط ہے، تفصیل اس کی یہ ہے کہ حضورِ قلب کے مراتب مختلف ہیں: ایک مرتبہ وہ ہے جس کو ۔ُفقہا ’’نیت1‘‘کہتے ہیں۔ اور وہ موقوف علیہ ہے صحتِ صلاۃ کا، یعنی بدون اس کے نماز ادا ہی نہیں ہوتی۔ اور دوسرا مرتبہ وہ ہے جس کو ’’خشوع‘‘ کہتے ہیں۔ جس کی حقیقت ان شاء اللہ تعالیٰ عنقریب مذکور ہوگی اور وہ موقوف علیہ ہے کمالِ صلاۃ کا، یعنی اس کے نہ ہونے سے نماز تو صحیح ہوجاتی ہے، مگر کامل نہیں ہوتی۔ایک معقولی استدلال : تیسرا مرتبہ وہ ہے جس کو’’ قطعِ وساوس‘‘ سے تعبیر کرنا مناسب ہے، یعنی اصلاً کسی قسم کا خطرہ نہ آئے اور یہ ایک قسم کا استغراق اور حال ہے، اس پر نہ صحت صلاۃ کی موقوف ہے، اور نہ کمال صلاۃ کا، البتہ فی نفسہٖ ایک محمود حالت ہے، گو مقصود نہیں۔ اوّل اور دوسرا مرتبہ اختیاری اور مقدور اور شرعاً مامور بھی ہے، اور اوّل ۔ّمقدمے میں یہی مراد ہے، اور تیسرا مرتبہ غیر اختیاری اور غیر مقدور اور شرعاً غیر مامور بہٰ ہے اور دوسرے ۔ّمقدمے میں یہی مراد ہے۔ جب حدِ۔ّ اوسط مشترک نہیں تو نتیجہ کیسے نکلے گا؟ اور اگر دونوں ۔ّمقدموں میں ایک ہی مراد ہو تو پھر ایک ۔ّمقدمہ باعتبار مادّہ کے غلط ہوگا، مثلاً: دونوں جگہ مرتبۂ اوّل وثانیہ مقدور ہے، جیسا ابھی بیان ہوا اور مقدور کو غیر مقدور کہنا غلط ہوگا۔