اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دینے) کی کوئی حد نہیں، حالاںکہ ضربِ فاحش (سخت مارنے) سے ۔ُفقہا نے مصرحاً منع فرمایا ہے، اور جس ضرب سے جلد پر نشان پڑ جائے، اس کو بھی ضربِ فاحش میں داخل کیا ہے، اور جس سے ہڈی ٹوٹ جائے، یا کھال پھٹ جائے وہ تو بہ درجۂ اولیٰ۔ (ردّ المحتار عن التاتارخانیہ: ۳؍۲۹۳) بلکہ ضربِ فاحش سے خود اُستاد کو تعزیر دی جائے گی۔ (درّمختار)تعزیر بدون ثبوت شرعی کے نہیں دی جاسکتی : اسی طرح یہ سخت کوتاہی ہے کہ ایسی سزاؤں کے لیے ثبوتِ شرعی کی ضرورت نہیں سمجھتے، بے سند خبروں پر بلکہ بعض دفعہ محض قرائن پر سزا دینے کو مباح سمجھتے ہیں، قرآنِ مجید میں نص ہے: {اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّط}1 الزام صرف اُن لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں، اور ناحق دنیا میں سرکشی اور تکبر کرتے ہیں۔ اورحق یا بدون دلیلِ شرعی کے کسی کو ایذا دینا ناحق کا ظلم ہے، جس پر یہ وعید ہے، اَسلم طریق ایسے لوگوںکا جن کو سزائیں دینا پڑتی ہیں، یہ ہے کہ جو صورتیں اکثر پیش آتی ہیں اُن کو ۔ُعلمائے محققین کے رُو برو پیش کرکے اُن کے احکامِ شرعیہ دریافت کرلیں کہ کون سا طریق ثبوت کا معتبر ہے اور کون سا غیر معتبر؟ اور کس صورت میں کتنی سزاجائز ہے، کتنی سزا ناجائز ہے؟ اور اس مقام پر کسی کتاب بینی کرنے والے کو دھوکا نہ ہو کہ۔ُفقہا نے مشتبہ آدمی کو تعزیر دینا جائز لکھا ہے،اگرچہ ثبوت باقاعدہ نہ ہو، کما في الدّر المختار: للقاضي تعزیر المتہم وإن لم یثبت علیہ۔ تہمت والے پر تعزیر لگوانے کے لیے قاضی کو اختیار ہے، اگرچہ وہ تہمت اس پر ثابت نہ ہو۔ بات یہ ہے کہ یہ حکم صحیح ہے، مگر خود مشتبہ ہونا بھی محتاجِ ثبوت ہے، یہ نہیں کہ سزا دینے والا جس کو چاہے مشتبہ سمجھ لیا کرے، چناںچہ قولِ مذکور: ’’وإن لم یثبت‘‘ کے تحت میں ’’ردّ المحتار‘‘ کا قول ہے: أي ما اتہم بہ، أما نفس التہمۃ، أي