اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ماںکا دودھ ایک ہی بار پیا تھا۔‘‘ میںنے کہا: تب بھی حرمت ثابت ہوگئی۔ کہنے لگے: ’’خدا کے واسطے کوئی صورت تو ۔ّحلت کی نکالو۔‘‘ میں نے کہا: ’’دیوانہ ہوئے ہو، کیا احکام (شرعیہ) میں تحریف کروں؟‘‘ غرض مایوس ہوکر چلے گئے، ایک مقام پر ایک اہلِ حدیث میں سے کسی نے کہہ دیا کہ پانچ گھونٹ سے کم میں حرمت نہیں ہوتی، پس فوراً انھوں نے سوال تراش لیا کہ ’’اگر پانچ گھونٹ سے کم پیا تو کیا حکم ہے؟‘‘ اور اسی قائل کے کسی ہم مشرب نے جواب لکھ دیا کہ ’’حرمت نہیں ہوئی‘‘، پس فتویٰ لے کر بے فکر ہوگئے۔ حالاںکہ اوّل تو یہ لوگ(اہلِ معاملہ) ان مفتیوں کو اس دن تک اہلِ حق میں سے بھی نہ سمجھتے تھے، پھر یہ مرضعہ (دودھ پلانے والی) مرگئی، زمانہ دراز ہوگیا، اب یہ کس طرح معلوم ہوا کہ پانچ گھونٹ سے کم پیے تھے؟ اس کو بجز دین کو دنیا کے تابع بنانے اور دین کو دنیا کے لیے بدلنے کے کیا کہا جائے گا؟ أعاذنا اللّٰہ تعالٰی منہا (اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا کرنے سے بچائے)۔مخطوبہ (یعنی منسوبہ لڑکی) قبلِ نکاح بالکل حرام ہے : بعض لوگوں کو اس میں مبتلا پایاکہ مخطوبہ (منگنی کی ہوئی عورت) کے ساتھ جو کہ قبل نکاح حرام ہے، مثل منکوحہ کے معاملہ کرتے ہیں، یوں سمجھتے ہیں کہ یہ جب عنقریب حلال ہونے کو ہے تو ابھی سے حلّت شروع ہوگئی۔ اس کا بطلان (باطل ہونا) عقلاً وسمعاً ظاہر ہے، اور شاید کسی کو اس سے شبہ واقع ہوکہ مخطوبہ کو قبلِ خطبہ کے دیکھ لینا جائز ہے،تو یہ بھی ایک قسم کا استمتاع (حصولِ لذت) ہے، اور استمتاع سب برابر ہیں، سو جواب اس شبہ کا خود ہی سوال میں موجود ہے، یعنی خطبہ کے قبل ہی تو دیکھ لینا جائز ہے، جس سے مقصود استمتاع نہیں، بلکہ اس کا اندازہ کرنا ہے کہ اس عورت میں جو وصف حسن وغیرہ میں نے سن کر یا سمجھ کر اس کے استمتاع کے حلال ہونے یعنی انعقادِ نکاح کی تجویز سوچی ہے آیا وہ وصف اس میں ہے یا نہیںہے؟ چوں کہ نہ ہونے کی صورت میں سوئِ معاشرت کا خوف تھا، شریعت نے محض اس غرض کے لیے ایک بار چہرہ دیکھ لینے کی اجازت دے دی، سو اس نظر ِضروری پر جوکہ بغرضِ استمتاع نہیں ہے، دوسری نظر غیر ضروری بعد ا۔ِلخطبہ کو اور اسی طرح مس وغیرہ کو جوکہ محض بغرض استمتاع بلا ضرورت ہے، کیوںکہ وہ ضرورت ایک بار دیکھنے سے مرتفع ہوچکی، کیسے قیاس کیا جاسکتاہے؟محصنات کے بارے میں چند کوتاہیاں : من جملہ ۔َمحرمات (جن عورتوں سے نکاح حرام ہے) کے بہ نصِ قرآن محصنات یعنی شوہر والی بیبیاں ہیں، اور شریعت میں شوہر والی کا مفہوم عام ہے، یعنی کسی کے نکاح