اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیا کہ ’’میں اغنیا وغیرہم کو بھی دوںگا۔‘‘ تو ان کے حصے کی نذر ہی منعقد نہیں ہوتی۔ (در المختار عن القنیۃ) یہاں سے مانی ہوئی گیارہویں کی شیرینی کے حصے خوش حال دوستوں کے گھر بھیجنے کا بھی حکم معلوم ہوگیا ہوگا، اور خود اس گیارہویں کی تحقیقات کا بدعت ہونا یا نیتِ عوام کا شرکِ جلی یا خفی ہونا یہ مستقل بحث ہے۔نذر کی تمام تخصیصات کا التزام ضروری نہیں : ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضے لوگ نذر کی تمام تر تخصیصات کو لازم وواجب سمجھتے ہیں، مثلاً: نذر کی کہ ’’دو روپے کی مٹھائی دوں گا یا کسی مسجد میں دوں گا یا اتنی رقم مکہ معظمہ بھجواؤںگا یا رمضان میں خیرات کروں گا۔‘‘ تو اس کا اہتمام کرنا کہ مٹھائی ہو اور مسجد میں جاوے، یا مکہ معظمہ ہی میں بھیجے یا رمضان کا انتظار کرے، ضروری نہیں۔ بعض اوقات تخصیصات کی ایفا پر قدرت نہ ہونے سے اصل نذر ہی ادا ہونے سے رہ جاتی ہے۔ مثلاً: مکہ لے جانے والا کوئی نہ ملا اور یہاںادا نہ کی، اسی میں موت آگئی تو گناہ گار مرا، یا اگر ایفائے تخصیصات پر قدرت بھی ہوئی لیکن کسی وجہ سے دوسرا ۔َمصرف یا دوسری صورت افضل ہو، تو ملتزمِ تخصیص اس فضیلت سے محروم رہتا ہے، مثلاً: اکثر اوقات مسجد میں مٹھائی بانٹنے والوں سے یہ افضل ہے کہ گھر بیٹھنے والے محتاجوں کو دو روپے نقد یا اس کا غلہ دے دیا جاوے، تو ایسے التزام مالا یلزم میں کیوں مبتلا ہو، البتہ جو نذر معلق ہو اس میں قبل وجودِ شرط ادا صحیح نہیں، بس اتنی تخصیص شرعاً معتبر ہے، اور دوسری تخصیصات نذرِمعلق میں بھی معتبر نہیں۔ (الدّر المختار) یہاں سے زنانِ عوام کی اس تخصیص کا حکم بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ ’’فلاں کام ہوجائے تو میں مسجد کا طاق بھروں گی۔‘‘ سو یہ قید بھی شرعاً معتبر نہیں، البتہ اگر کوئی نذر کرے کہ ’’اب کے سال قربانی کروںگا۔‘‘ یہاں تخصیص ایامِ نحر کی ہوجائے گی۔ (ردّالمحتار) نہ اس وجہ سے کہ زمان مقصود بلکہ اس لیے کہ جو ایامِ نحر میں نہ ہو وہ قربانی ہی نہیں جو کہ مقصود ہے، اور جو صدقہ مکہ میں نہ ہو وہ بھی صدقہ ہی ہے اور صدقہ ہی مقصود ہے، یہ فرق ہے دونوں تخصیصوں میں۔ناجائز فعل کی نذر اور اس کا ایفا جائز نہیں : ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم جس فعل کی نذر