اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اس کے سمجھنے سے پہلے ایک قاعدۂ کلیہ سمجھ لینا چاہیے، اس سے ان غلطیوںکا سمجھنا آسان ہوجائے گا۔مفقود اپنے نفس کے حق میں زندہ ہے : وہ قاعدہ یہ ہے کہ مفقود چوںکہ وقت مفقود ہونے کے زندہ تھا، اوراب تک اس کی موت کی کوئی دلیل نہیں، تو اس کا ظاہرِ حال یہ ہے کہ وہ زندہ ہے، اور ظاہرِ حال جس کو ’’استصحاب‘‘ بھی کہتے ہیں، حجتِ واقعہ ہے حجتِ مشتبہ نہیں، پس یہ حیاتِ ظاہری اس کا حق تو دوسرے کے مال میں ثابت نہ کرے گی، لیکن اس کے مال میں دُوسرے کا حق ثابت نہ ہونے دے گی، یعنی اگر اس کے زمانۂ فقدان (گم شدگی) میں اس کا کوئی مورث مثلاً اس کا باپ مرا، اور اس کے دو بیٹے تھے: ایک یہی مفقود، دوسرا موجود، تو اس کے ترکہ میں اس مفقود کا یقینی حق نہیں ہوگا، بلکہ احتمالِ حیات کے سبب اس کا حصہ بہ طورِ امانت کے رکھیں گے، اگر آگیا تو لے لے گا، اور اگر نہ آیا یہاں تک کہ انتظار کی مد۔ّتِ شرعیہ کے بعد (جس کی مقدار آگے آتی ہے) اس کی موت کاحکم کیا گیا تو وہ امانت رکھا ہوا حصہ اسی موجود کا سمجھا جائے گا، اگر وہ زندہ ہوا تو وہ لے گا، ورنہ اس کے شرعی ورثا لیں گے، یوںنہ سمجھا جائے گا کہ وہ اس مفقود کا حق ہے، تاکہ اس کے مال کے ساتھ وہ بھی اس کے ورثا کو دیا جائے، اور یہی مطلب ہے حجتِ مشتبہ نہ ہونے کا، اور یہی مطلب ہے حجتِ واقعہ ہونے کا، اور یہی مطلب ہے ۔ُفقہاکے اس قول کا کہ وہ اپنے نفس کے حق میں ۔ّحی (زندہ) ہے۔مفقود کے بارے میں چند کوتاہیاں اس قاعدۂ کلیہ کے بعد اب ان غلطیوں کو سمجھنا چاہیے:مفقود کا حصۂ وراثت رکھنا چاہیے : سو ایک غلطی یہ کی جاتی ہے کہ اس کے مفقود ہونے کے زمانہ میں جو اس کا مورث مرتا ہے اس کے ترکہ میں سے اس مفقود کا حصہ کوئی شخص نہیں رکھتا، ورثا حاضرین باہم تقسیم کرلیتے ہیں، حالاںکہ گو اس کا استحقاق یقینی نہیں مگرمحتمل تو ہے، اس کا انجام یہ ہوتاہے کہ اگر وہ صحیح سالم آگیا، اگر اس کو اپنے استحقاق کا علم ہوا، اور اس کے وصولی کی قوت بھی ہوئی تب تو نزاع (جھگڑا) ہوگا، اور اگر علم نہ ہوا یا قدرت نہ ہوئی تو دوسرے ورثا حق العباد کے وبال میں مبتلا ہوں گے۔