اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ذالک، کی طرف تو کیا توجہ ہوگی؟ کیوںکہ معاملات کا زیادہ اور معاشرت کا اس سے کم دوسروں تک تو اثر پہنچنا معلوم ہے، نیز ان پر بعض اوقات نیک نامی وبدنامی کا تر۔ّتب بھی ہوجاتا ہے، بہ خلاف اخلاقِ باطنی کے کہ اس کا غالب اثر بھی اپنی ہی ذات تک محدود ہے، اور بہ وجہ خفا کے دوسروں کو ان کا علم بھی کم ہوتا ہے جس سے نیک نام یا بدنام کرسکیں، اس لیے اس کا اہتمام تو بالکل ہی ندارد ہے، حتیٰ کہ بہت سے خواص میں بھی، تابہ عوام چہ رسد۔ بہر حال ان سب اُمورِ دینیہ میں قلتِ مبالات کا اصل منشا و سبب قلتِ علمِ دین ہے، پھر جہاں بالکل ہی علم نہ ہو ( اور اس سے بڑھ کر یہ کہ فطرتاً عقل بھی کم ہو، کیوںکہ طبقۂ اِناث قدرتی طور پر ناقص العقل ہیں، غرض جہاں نہ عقل ہو، نہ علم ہو) تو وہاں اُمورِ مذکورہ میں کوتاہی کی کیا حد ہوگی؟ غرض عقل اور مشاہدہ دونوں شاہد کہ بدونِ علم کے عمل کی تصحیح ممکن نہیں اور عمل کی تصحیح واجب اور فرض۔ پس تحصیل علمِ دین کا فرض ہونا جیسا اُوپر دعوی کیا گیاہے، عقلاً بھی ثابت ہوگیا اور سمعاً فرض ہونا اس سے اُوپر بیان کیا گیا ہے، تو دونوں طرح تحصیلِ علمِ دین فرض ہوا۔ پس ان لوگوں کا یہ خیال کہ ’’جب عورتوں کو نوکری کرنا نہیں ہے تو ان کی تعلیم کیا ضرور ہے؟‘‘ محض غلط ٹھہرا، یہ جواب ہوا ان کی مذکورہ کوتاہی کا۔تعلیمِ نسواں کی فرضیت پر ایک شبہ اور اس کا جواب : البتہ اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ علمِ دین کی فرضیت سے تعلیم بہ طریقِ متعارف کا واجب ہونا لازم نہیں آتا کہ مستورات کو کتابیں بھی پڑھائی جائیں، بلکہ یہ فرض اہلِ علم سے پوچھ پاچھ رکھنے سے ادا ہوسکتاہے۔ سو اس کی تحقیق یہ ہے کہ واقعی یہ بات صحیح اور ہم تعلیمِ متعارف کو فی نفسہٖ واجب بھی نہیں کہتے، لیکن یہاں تین مقد۔ّمے قابلِ غور ہیں: اوّل یہ کہ مقد۔ّمہ واجب کا واجب ہوتاہے، گو بالغیر سہی، جیسے جو شخص پیادہ سفرِ حج قطع کرنے پر قادر نہ ہو اور اس شخص کے زمانے میں ریل اور آگ بوٹ (اسٹیمر) ہی ذریعہ قطعِ سفر کا متعین ہو اور اس کے پاس اس قدر وسعت واستطاعت بھی ہو، تو اس شخص پر واجب ہوگا کہ سفر کا عزم کرے اور ریل اور آگ بوٹ کا ٹکٹ خرید کر اس میں سوار ہو، سوریل اور آگ بوٹ کا ٹکٹ خریدنا اور اس پر سوار ہونا فی نفسہٖ شرعاً فرض نہیں، لیکن چوںکہ ایک فرض کا ذریعہ ہے اس لیے یہ بھی