اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ایک صورت ہے پہلی طلاق کے کالعدم ہوجانے کی، اور وہ صورت یہ ہے کہ اس شوہر کے بعد عد۔ّت گزار کر اس عورت نے دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا اور اس نے ہم بستری کے بعد طلاق دے دی یا ہم بستری کے بعد مرگیا اورپھر یہ شوہرِ اوّل کے نکاح میںآگئی، اب البتہ پہلی طلاقوں کا کچھ اعتبار نہ ہوگا، یعنی یہ از سرِ نو تین طلاقوں کا مالک ہوجائے گا، جس طرح اپنے نکاحِ اوّل میں تین طلاق کا مالک تھا، مگر یہ امام صاحب ؒ کا قول ہے۔ اور امام محمد ؒ نے اس میں خلاف کیا ہے اور دونوں کی ترجیح میں ۔ُعلما نے اختلاف کیا ہے۔1 تنبیہ: یہ دو بار تک رجعت طلاقِ رجعی میں ہے، بائنہ میں نہیں، تفصیل اس کی فقہ میں ہے، اور بہ قدرِ ضرورت ’’بہشتی زیور‘‘ میں بھی ہے، ملاحظہ کرلیا جائے۔ فقط۔ وسط ماہِ شعبان ۱۳۳۷ھشوہر کی تنہائی میں طلاق کامسئلہ : ایک عام غلطی بابِ طلاق میں یہ ہے کہ بعض اوقات منکوحہ دعویٰ کرتی ہے کہ ’’شوہر نے مجھ کو طلاق دے دی ہے‘‘ مگر کوئی گواہ پیش نہیں کرسکتی، تنہائی میں طلاق دینا بیان کرتی ہے۔ اس موقع میں لوگ دو قسم کی غلطیاں کرتے ہیں: اکثر تو اس صورت میں طلاق واقع نہ ہونے کا حکم کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ’’اگر بدون گواہوں کے عورت کے قول کا اعتبار کیا جائے تو بس عورتیں تو خوب آزاد ہوجائیں گی، ذرا شوہر سے ان بن ہوئی اور طلاق کا دعویٰ دھر مارا۔‘‘ اور بعضے عورت کی بے کسی پر تر۔ّحم کرکے اور قرائنِ عادیہ سے کام لے کر (کہ عورت کی مقابلۂ شوہر کے کب جھوٹ بولنے کی ہمّت ہوتی ہے۔ یا یہ کہ عورت شوہر سے جدا ہونے کو کب گوارا کرتی ہے، اگر وہ طلاق نہ دیتا تو بھلا عورت کو ایسے دعوے کی کیا ضرورت تھی؟) طلاق واقع ہونے کا حکم کردیتے ہیں، حالاںکہ دونوں فریق کے استدلالات لچر ہیں۔ فریقِ ثانی کا تو ظاہر ہے کہ اس کے خلاف کا کثرت سے مشاہدہ کیا جاتاہے، بہت عورتیں بے باک بھی ہوتی ہیں اور جھوٹ بھی بولتی ہیں اور شوہر سے نفرت رکھنے والیاں بھی بہت ہیں۔ اور فریقِ اوّل کا اس لیے کہ کوئی اس کے مقابلے میں یوں کہہ سکتا ہے کہ: ’’اگر عورت کی علی الاطلاق تکذیب کردی جائے تو جن صورتوں میں شوہر قصداً تنہائی میں اس لیے طلاق دے کہ دعوے کے وقت انکار کرسکوں اور عمر بھر اس کو پریشان کروں توعورتیں سخت قید میں اور ظلم میں گرفتار ہوجائیں گی۔‘‘ یہ تو معارضہ ہے۔ اور اس فریق کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ اس وقت کیا جاسکتا ہے جب کہ ہم یہ حکم دیں کہ طلاق واقع ہوگئی، سو اس حکم کے لیے بے شک گواہوں کی ضرورت ہے، بدون گواہوں کے ایسا حکم نہیں دیا جاسکتا، لیکن اگر یہ حکم نہ دیا جائے، کیوںکہ غیب کی خبر تو اللہ تعالیٰ کو ہے، بلکہ عورت کو یہ مسئلہ بتلایا جائے کہ اگر واقعی اس نے تیرے سامنے طلاق دی ہے تو تجھ کو اس سے علیحدہ رہنا