اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سوال کرے تو اس کے جواب میں پہلے غصے کا اثر نہ آنا چاہیے، اور اس سے زیادہ اثر نہ رکھنے کا محل وہ ہے کہ جب دوسرا طالبِ علم کوئی بات پوچھنے لگے، وہاں تو بہ درجۂ اولیٰ پہلا اثر نہ آنے پاوے، بعض جھلے مزاج کے اُستاد ایک پر خفا ہوئے تو بس اب ختمِ درس تک سب ہی پر برستے رہیںگے۔ ؓ أَنَّ عَائِشَۃَؓ زَوْجَ النَّبِيِّﷺ کَانَتْ لَا تَسْمَعُ شَیْئًا لاَ تَعْرِفُہُ، إِلَّا رَاجَعَتْ فِیْہِ حَتَّی تَعْرِفَہُ، وَأَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ: مَنْ حُوْسِبَ حضرت عائشہ ؓ جب جنابِ رسول اللہ ﷺ سے ایسی باتیں سنتی تھیں کہ جو ان کو معلوم نہ ہو تو برابر جنابِ رسول اللہﷺ سے پوچھ گچھ کرتی تھیں،یہاں تک کہ سمجھ لیتی تھیں، ایک مرتبہ عُذِّبَ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ أَوَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًاO}؟ قَالَتْ: فَقَالَ: إِنَّمَا ذٰلِکَ العَرْضُ، وَلَکِنْ مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ یَہْلِکْ۔1 جنابِ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص حساب میں گرفتار ہوا وہ عذاب میں مبتلا ہوا۔ تو حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یوں نہیں فرمایا کہ ’’حساب آسان کیا جائے گا‘‘؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ پیشی ہے، ورنہ جس سے مناقشہ کیاگیا حساب میں، وہ ہلاک ہوگیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر اُستاد کی تقریر میں کوئی شبہ رہے اور طالبِ علم اس کو پوچھنے لگے تو نازک مزاج سے ناخوش نہ ہو، البتہ اگر فضول سوال ہو تو ناخوشی کا اظہار بھی جائز ہے جیساکہ اُوپرحدیث میں لقطۂ ابل کے سوال پر حضورﷺ کا برہم ہونا مذکور ہے۔اگر طالب علم کے فہم یا حفظ کی کوئی تدبیر معلوم ہوتو کرنی چاہیے : i عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَؓ قَال: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّيْ أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِیْثًا کَثِیْرًا أَنْسَاہُ قَالَ: ابْسُطْ رِدَائَکَ۔ فَبَسَطْتُہُ، فَغَرَفَ بِیَدَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ضُمَّہُ۔ فَضَمَمْتُہُ، فَمَا نَسِیْتُ شَیْئًا بَعْدَہُ۔2