اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کامطالعہ شروع کردیتے ہیں، پھر ان میں بھی دو قسم کی جماعت ہیں: ایک معتقد۔ُعلما کی، دوسرے کچھ انگریزی پڑھ کر یا انگریزی خوانوں کے پاس رہ کر خود اجتہاد کا دعویٰ کرنے والے، مشترک خرابی تو یہ ہے کہ اس حالت میں فہمِ معانی میں بہ کثرت غلطیاں رہ جاتی ہیں، چناںچہ اس پر واقعاتِ کثیرہ شاہد ہیں اور راز اس میں یہ ہے کہ: ۱۔ اوّل تو ایک زبان جب دوسری زبان میں ترجمہ ہوکر آتی ہے، ضرور بعض مفہومات اصلی رنگ پر نہیں رہتے۔ ۲۔ دوسرے بہت سے مقامات میں خود اجمال ہے، جو بدون تفصیل کے وجوہِ ۔ّمتعدد کو محتمل ہوتاہے، بعض وجوہ کی تعیین بلادلیل کرلی جاتی ہیں، جس طرح قانون کی کوئی کتاب اُردو کے بڑے فاضل کودی جائے اور وہ اس کو بیان کرے مگر قانون دان اس کو سن کر بہت جگہ غلط بتلادے گا۔ ۳۔ تیسرے یقینا فہم ِقرآن میں بعض دوسرے فنونِ نقلیہ و عقلیہ کی حاجت ہے، جو شخص اُن سے بے خبر ہے وہ قطعاً غلطی میں پڑے گا۔ دوسری جماعت میں بالخصوص یہ خرابی ہے کہ اُن کی غلطی پر بھی اگر کوئی مطلع کرے تو وہ اپنے کو اس بتلانے والے سے افضل اور عاقل سمجھ کر اس کی نہیں سنتے، اور عقیدے یا عمل میں اس غلطی پر جم جاتے ہیں، پھر بعض اوقات بناء فاسد علی الفاسد کے طریق پر دوسرے اور فاسد کو اس پر ۔ّمتفرع کرلیتے ہیں۔طریقِ اصلاح ـ: ان دونوں یعنی چھٹی اور ساتویں کوتاہی کے مجموعے کی اصلاح یہ ہے کہ اگر کسی قدر علم یا صحبتِ ۔ُعلما کی برکت سے فہم مع حرف شناسی حاصل ہو، تب تو کسی محقق عالم سے کوئی ترجمہ یا مختصر یامتوسط تفسیر دریافت کرکے ان ہی عالم سے سبقًا سبقًا تمام قرآن کا ترجمہ بالتفسیر خوب سمجھ کر ختم کرلیں، اور بعض مقامات جو باوجود سمجھانے کے سمجھ میں نہ آئیں، یاکچھ شبہ رہے، اس کے درپے نہ ہوں، بس زبانی مقصدِ شرع اس عالم سے دریافت کرکے اس پر اعتقاد رکھ کر تفتیش چھوڑدیں، اور ایسے مقامات پر نشان بنادیں، پھر جب تلاوت کریں تو تھوڑا سا مطالعہ اس ترجمہ یا تفسیر کا بھی کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ اس طرح معانیٔ قرآن سے مناسبت بڑھ جائے گی کہ یاد اور فہم دونوں میں سہولت اور ترقی ہوگی اور اس میں سہولت اور ترقی ہونے سے طبعاً رغبت بڑھے گی، پھر دوام آسان ہوجائے گا، اور تد۔ّبر و عمل میں بھی، جن کا ذکر آگے آتاہے، اس سے اعانت ہوگی، اور اگر اس قدر استعداد نہیں ہے تو پھر اس کے معانی پرمطلع ہونے کا سہل طریقہ یہ ہے کہ