اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مشایخ اور اہلِ مدارس کے لیے دستور العمل : اہلِ مدارس اس کا التزام رکھیں کہ جو طالبِ علم ان کے مدرسے میں داخل ہونا چاہیں امتحانِ داخلہ کا ایک جزو اور اجزا سے زیادہ نہیں، تو برابر درجے میں سہی صحتِ قرآن کو بھی قرار دیں۔ اور بدون تجربۂ صحت یا بعض حالات میں کم از کم وعدئہ تصحیح تو ضرور لے لیا جائے، بدون اس کے داخل نہ کریں، اور وعدے کی صورت میں جتنے سبقوں کا وہ مستحق ہے ان میں سے ایک سبق کی جگہ اس تصحیح کو رکھیں اور اس مرحلے کوطے کرنے کے بعدپورے سبقوںکی اجازت دیں۔ اور نیز جن مدارس میں گنجایش ہے ان کو ایک مدرّس تجوید کا مدرسے میں بڑھانا ضروری ہے، اس طریق سے یہ فن عام ہوسکتا ہے۔ اسی طرح مشایخ کو چاہیے کہ اپنے مریدوں کو، خصوصی ۔ُخلفا کو صحتِ قرآن پر مجبور کریں، کیا ظاہر یا باطن کامقتدا بنایا جائے اور بچوں سے بھی کم ہو، کیا یہ معیوب نہیں؟تجوید میں اِفراط و تفریط : چوتھی کوتاہی یہ ہے کہ بعضے تصحیح وتجوید کو بھی ضروری سمجھتے ہیں مگر کاوش اور بحث ہی تک پہنچ کر رہ جاتے ہیں، جیسا اس وقت لوگ ’’ض، ظ‘‘ میں اُلجھنے والے دیکھے جاتے ہیں، مگر ان شاء اللہ تعالیٰ ادا کے نام خاک بھی نہیں، بعضے عمل تک پہنچنے کا ارادہ کرتے ہیں مگر اس کی حقیقت سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں، یعنی صرف لہجے کانام قرأ ت سمجھ کر اسی کا اہتمام کرتے ہیں، اور یا تو خود کوئی طبعی لہجہ اختراع کرتے ہیں اور یاکسی مشاق کی نقل اُتار لیتے ہیں اور اتار چڑھاؤ صحتِ وزن میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ بعضے ضروریات یامستحسناتِ قرأت بھی فوت ہوجاتے ہیں، یعنی حرف گھٹابڑھا دیتے ہیں، یا غنہ یا ۔ّمد حذف کردیتے ہیں تاکہ وزن ٹھیک رہے۔ سو اس کی نسبت سرکارِ نبوی ﷺ کا ارشاد ہے: اِقْرَئُ وا الْقُرْآنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَأَصْوَاتِہَا، وَإِیَّاکُمْ وَلُحُوْنَ أَہْلِ الْعِشْقِ وَلُحُوْنَ أَہْلِ الْکَتَابَیْنِ۔1 تم قرآن شریف کو عربوں کے طریقے اور اُن کے لہجے میں پڑھو، عاشقوں اور اہلِ کتاب کے طریقوں سے بچو۔ یعنی ایسے لحن سے منع فرمایا ہے، اور اس کو لحونِ عرب سمجھنا خطائے عظیم ہے، جیسا شراحِ حدیث نے تصریح کی ہے، بلکہ یہ لحن اہلِ عشق واہل ِکتاب میں داخل ہے، جس کو منع فرمایا ہے، اور اگر یہ لحنِ عرب ہوگا تو لحنِ اہلِ عشق کون ہوگا؟ پس