اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محبت ہوگی اُسی قدر علم میں برکت ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کوئی باطنی برکت عطا فرماوے تو شاگرد سے اس کو دریغ نہ کرے، غرض غذا ظاہری وباطنی کا کچھ حصہ اس کو بھی دے دے۔اگرکوئی بات غصے کی صورت میں کہنے سے شاگرد کے لیے بہتری ہو تو اس صورت میں کہے : ؑ عَنْ أَبِيْ مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّؓ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا حضرت ابومسعود ؓ نے کہا کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں شخص کے نماز طول رَسُولَ اللّٰہِ! لاَ أَکَادُ أُدْرِکُ الصَّلاَۃَ مِمَّا یُطَوِّلُ بِنَا فُلاَنٌ۔ فَمَا رَأَیْتُ النَّبِيَّﷺ فِيْ مَوْعِظَۃٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ یَوْمِئِذٍ، فَقَالَ: یَاأَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّکُمْ مُنَفِّرُوْنَ، فَمَنْ صَلَّی بِالنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ؛ فَإِنَّ فِیْہِمُ المَرِیْضَ، وَالضَّعِیْفَ، وَذَا الْحَاجَۃِ۔1 کرنے کی وجہ سے قریب ہے کہ میں نہ پاسکوں (یعنی بد دل ہوکر جماعت چھوڑدوں)۔ تو جنابِ رسول اللہﷺ اس قدر برا فروختہ ہوئے کہ ایسے کبھی میں نے برافروختہ ہوتے آپ کو نہ دیکھا، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو نفرت دلاتے ہو، جو آدمی نماز میں امامت کرے اس کو چاہیے کہ (قرأ ت میں) تخفیف کرے، کیوںکہ مریض اور ضعیف اور حاجت مند سب قسم کے لوگ نماز میں ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے دو امر متعلق طالب علموں کے ثابت ہوئے، ایک یہ کہ اگر کچھ اسباق کسی اپنے شاگرد یا ماتحت مدرّس کے سپرد کیے جاویں اوروہ طالبِ علم اس کی شکایت کرے تو شکایت سننا چاہیے اور تحقیق کے بعد اس کا انتظام کرنا چاہیے، یہ نہیں کہ محض اس کے طالبِ علم ہونے کے سبب اس کو اور اس کی بات کو محض لاشے سمجھ کر نظر اندازکردیا جاوے۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی طالبِ علم سے کوئی امر نامناسب صادر ہو اور کسی طور سے معلوم ہوجاوے کہ غضب ناک ہوکر کہنے سے زیادہ نفع ہوگا، تو وہاں اس کی مصلحت کے واسطے غصہ ہی کرنا افضل ہے، جس سے اس کی اصلاح کامل ہوجاوے۔