اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرسکے تو ایسا شخص اگر سوال نہ کرے تو پھر کیا تدبیر کرے؟ اس لیے ایسے شخص کو سوال کی اجازت ہے، جب سوال جائز ہے تو اس کے سوال پر دینا بھی جائز ہے۔ اور اسی حکم میں ہے وہ مسافر جس کو سفر میں کوئی خسارہ یا حاجت ایسی پیش آگئی کہ اگر کمانا شروع کرے تو بس سفر ہی میں رہا کرے، گھر نہ پہنچ سکے اور گھر سے بھی خرچ منگانا یا تو ممکن نہ ہو یا اتنی مہلت نہ ہو۔ اور اسی حکم میں وہ شخص بھی ہے جو قوی تو ہے مگر بہ وجہ خوگر نہ ہونے کے متحمل تعب کا نہیں، اس لیے مُکتسِب نہیں ہوسکتا، پس ان سب لوگوں کو سوال پر بھی دینا جائز ہے۔ اور اگر سبب اس اِفراط کا تفاخر و شہرت یا طمع و خوفِ دُنیوی ہے تو اس دینے کابیکار ہونا بلکہ موجبِ گناہ ہونا بہت ہی ظاہر ہے، اور بالخصوص اگر یہ طمع و خوف بے شرعی فقیروں سے ہے جیسا اس زمانے میں اکثر دنیا پرست لوگ ایسے بھنگڑوں کو غوث وقطب سمجھ کر اپنا مال اور دین دونوں خراب کرتے ہیں تو ا س کو تو مصداق طلب بعضہا فوق بعض کا کہیںگا۔ یہ ذکر تھا سائل کے دینے نہ دینے کے متعلق کوتاہیوںکا، اور ایک ان اعمالِ مالیہ مقصودہ با۔ّلذکر میں سے قرض مانگنے والے کو قرض دینا ہے، اس میں بھی چند کوتاہیاں ہوتی ہیں۔اگر گنجایش ہوتو قرض مانگنے والے کو قرض دینا چاہیے : ایک یہ کہ بعضے لوگ باوجود اس کے کہ اپنے پاس حاجت سے زائد رقم رکھی ہے یا بآسانی انتظام کرسکتے ہیں اور مانگنے والا سخت حاجت مند ہے اور بے اعتبار بھی نہیں، مگر پھر بھی غایت بے رحمی سے قرض دینے سے انکار کردیتے ہیں، بعض اوقات جھوٹ بولتے ہیں کہ ہمارے پاس نہیں ہے، وجہ اس کی یا بخل ہے یا بے رحمی ہے یا جہل ہے کہ یہ سمجھتا ہے کہ قرض دینے سے فائدہ کیا ہوگا؟ اس لیے نہ دینا تجویز کرتاہے، اگر بخل یا بے رحمی ہے تو اس کا مذموم ہونا ظاہر اور ۔ُمسلم۔ّ ہی ہے، محتاجِ بیان نہیں، اور اگر جہل ہے تو اس کا فائدہ سمجھانا ضرور ہے تاکہ اس علم سے وہ جہل مرتفع ہوجائے، سو اوّل تو جس قلب میں تر۔ّحم کا جوش ہوتا ہے وہ اس وقت فائدہ کو بھی نہیں سوچتا، خود تر۔ّحم حامل علی الاعانۃ ہوتا ہے، کیا جو شخص اپنی اولاد کی پرورش کرتا ہے گو اس میں فائدہ بھی ہے، دنیا کا بھی آخرت کا بھی، مگر کیا پرورش کے وقت اس فائدے کو سوچتا ہے؟ کیا اگر فائدہ نہ سوچے تو پرورش نہ کرے گا؟ پس مسلمانوں میں باہم وہی تراحم وتوادد ہونا چاہیے جو اقارب میں ہوتاہے۔ اگر بدون فائدہ سمجھے ہوئے قرض دینے کی ۔ّہمت نہ ہو تو فائدہ بھی سمجھ لینا چاہیے اور گو فائدہ دنیوی بھی ہے مثلاً: ممنون کے قلب میں محسن کی محبت پیدا ہونا، باہم اُلفت وہمدردی بڑھنا، لیکن مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے فائدہ دنیویہ کو مطمحِ نظر نہ بنانا چاہیے، اس لیے اس سے قطع نظر کرکے فائدہ اُخرویہ سمجھنا چاہیے اور وہ ثواب ہے، جوکہ حدیث