اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اُستاد کی خدمت میں بلا اجازت نہ جاوے : آیت۴: {اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاِذَا کَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَاْذِنُوْہُط}2 جزایں نیست کہ مؤمن وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب ہوتے ہیں ساتھ رسول کے کسی اجتماعی بات پر، تو نہیں جاتے جب تک اجازت نہ لے لیں۔ اس آیت سے اُستاد کا یہ حق ثابت ہوا کہ اس کی خدمت میں بلا اِذن نہ جاوے خواہ اِذن صراحتًا ہو یا دلالتاً۔تعلیم دین بھی احسان ہے : حدیث: عن ابن عمرؓ : مَنْ صَنَعَ إِلَیْکُمْ مَعْرُوْفًا فَکَافِئُوْہُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوْا مَا تُکَافِئُوْنَہُ فَادْعُوْا لَہُ حَتَّی تَرَوْا أَنَّکُمْ قَدْ کَافَأْتُمُوْہُ۔3 جو شخص تم پر احسان کرے اگر تم اس کی ۔ُمکافات کرسکتے ہو تو کردو، ورنہ اس کے لیے دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھ لو کہ تم نے اس کی ۔ُمکافات کردی۔ کیا کوئی شخص تعلیمِ دین کے معروف یعنی احسان ہونے سے انکار کرسکتا ہے؟ جب اس کا احسان ہونا مسلّم ہوگیا تو اس کے ۔ُمکافات میں اس کی ہر قسم کی خدمت مال سے، جان سے داخل ہوگئی جو حدیثِ ہذا میں مامور بہ ہے۔ اور جب کسی قسم کی استطاعت نہ ہو تو اس وقت اقل درجہ دُعا ہی سے یاد رکھنا ضروری ہے۔ حدیث: عن أبي ہریرۃؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہﷺ : مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ۔1 جس نے آدمیوں کا شکر ادا نہ کیا، اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر نہ ادا کیا۔ اس حدیث کے عموم میں اُستاد بہ درجۂ اُولیٰ داخل ہے کہ بہت بڑی نعمت یعنی علمِ دین کا واسطہ ہے، اس کی حق شناسی میں کوتاہی کرنا بہ نصِ حدیث حق تعالیٰ کی ناشکری ہے، جس کا محلِ وعید ہونا نصِ قطعی سے ثابت ہے۔