اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چاہیے، جس صورت میں رجعت ناجائز ہو اس سے ہم بستر نہ ہونا چاہیے، تو اس حکم میں یہ واقع نہ ہوگا، غرض حکم بالطّلاق اور چیز ہے اور حکم بصونِ النفس بشرطِ طلاق اور چیز ہے۔غصے اور مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے : ایک غلطی یہ ہے کہ بعضے لوگ ایسے ہی بطور۔َہز۔َل (مذاق) کے منہ سے لفظِ ’’طلاق‘‘ نکال دیتے ہیں، مگر ان کا قصد طلاق دینے کا نہیں ہوتا، تو بعضے لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ سو سمجھ لینا چاہیے کہ اس صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی، کیوںکہ تکلّم تو بالقصد (بات کرنا تو ارادے کے ساتھ) ہوا ہے، گو اس کے ساتھ اس کے معنی کے واقع ہونے کا قصد نہیں ہوا، بلکہ اس کے عدمِ وقوع (واقع نہ ہونے) کا قصد ہوا ہے، سو یہ شریعت میں معتبر نہیں۔ بعضے لوگ اس غلطی میں یوں سمجھے ہوئے ہیں کہ غصے میں طلاق واقع نہیں ہوتی، یہ بھی غلط مسئلہ ہے، طلاق غصّے میں بھی واقع ہوجاتی ہے، اور طلاق تو اکثر غصے ہی میں دی جاتی ہے۔زبردستی سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے : بعضے لوگ اس غلطی میں ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی زبردستی سے کسی سے طلاق دلوادے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، سو یہ بات بھی صحیح نہیں، اِکراہ (زبردستی) میں بھی طلاق واقع ہوتی ہے، گو اِکراہ کرنے والے پر مواخذہ ہو، جیسے: کوئی زبردستی کسی کو کسی سے پٹوادے تو کیا اس ضرب کا اثر نہ ہوگا؟ یعنی چوٹ نہ لگے گی؟’’طلاق‘‘ کا لفظ منہ سے نکالتے ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے : اسی طرح تلفظ بالطّلاق (طلاق کا لفظ زبان سے نکالنے) کا اثر وقوعِ طلاق (طلاق کا واقع ہونا) ہے، وہ بھی واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر منہ سے لفظ’’طلاق‘‘ قصداً نہ کہے، بلکہ ویسے ہی منہ سے بلا ارادہ نکل گیا، یا کوئی شخص الفاظِ طلاق کے معنی نہ جانتا ہو، کچھ اور مطلب سمجھ کر منہ سے کہہ دیا تو ان دونوں صورتوں میں قضائً (دنیاوی فیصلے کے اعتبار سے) تو طلاق کا وقوع ہوگیا، یعنی عورت کو جائز نہیں کہ اس سے تعلق زوجیت کا رکھے، بلکہ مرد کو بہ قدرِ قدرت روکے، اور اگر روکنے پر قدرت ہی نہ رہی، بلکہ اندیشہ جان کے تلف (ضائع) ہونے کا یا ظلمِ شدید کا ہو جس کا تحمل نہ ہوسکے تو پھر اس عورت پر گناہ نہ ہوگا، لیکن اگر فرضاً عورت کو اس واقع کی اطلاع نہ