اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنے ذ۔ّمے سمجھتے ہوں، یہ بات بہت نادر بلکہ قریب قریب معدوم ہے، اور جب سمجھتے ہی نہیں تو سمجھ کر ادا کرنے کے اہتمام کا تو کیا ذکر ہے، بلکہ بعض جگہ تو نہایت افسوس کی بات ہے کہ بجائے باہم اُخوت، وفاق ورعایتِ حقوق کے ایک طرف سے یا کہیں دونوں طرف سے بغض وحسد وخلاف وعقوق دیکھا جاتاہے، ا س لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ ان سب حقوق کی کچھ کچھ جزئیات بہ طور نمونہ لکھ دی جاویں، خود ان جزئیات کے بیان میں ان شاء اللہ تعالیٰ ایسے اُصول ہاتھ آجاویں گے کہ ان اُصول سے دوسری غیر مذکور جزئیات کا سمجھنا اور رعایت کرنا سہل ہوجائے گا، اور ہر چند کہ یہ تینوں قسم کے حقوق اور آداب میرے نزدیک فطری ہیں اور ذرا بھی فطرت میں سلامتی ہو تو ان کے معلوم کرنے اور نیز عمل پر تقاضا کرنے کے لیے صرف وجدان کافی ہے، لیکن اس خیال سے شاید کسی احتمال پرست کو گمان ہو کہ مثل دیگر حقوق کے یہ حقوق شریعت میں منقول نہیں، قرینِ مصلحت معلوم ہوا کہ اوّلاً نصوص کو نقل کرکے ساتھ ساتھ ان حقوق کی تقریر کرتا جاؤں اور حتی الامکان ترتیب کا بھی لحاظ رکھوں، اس طرح کہ اوّل حقوق اُستاد کے، پھر شاگرد کے، پھر ہم درس کے بیان کروں اور ’’حتی الامکان‘‘ اس لیے کہا کہ ممکن ہے کہ کسی نص سے دو یا تین جماعتوں کے حقوق مفہوم ہوتے ہوں تو خاص اس میں وہ ترتیب ملحوظ نہ رہے گی، گو ایسا قلیل ہوگا۔ اور جاننا چاہیے کہ اُستاد عام ہے، سبق پڑھانے والے اور پوچھنے پر مسئلہ بتلانے والے اور ابتداء ًاَمر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے والے اور اصلاحِ نفس کے طریقے بتلانے والے یعنی پیر کو، اسی طرح شاگرد عام ہے تلمیذِ متعارف اور سائل عن الدین او رمرید کو، اسی طرح ہم درس عام ہے متعارف ہم سبق اور کسی عالم کی مجلس میں شرکت کرنے والوں اور پیر بھائی کو۔ اور ثانیاً بعد سوق نصوص کے بہ طور تفریع یا توضیح بالتفصیل یا تتمیم کے کچھ جزئیات کی بھی تقریر کردوں کہ وہ بھی گویا اصل ہی کے ساتھ ملحق ہوگا۔حقوق و آدابِ معلم آیت۱:{لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (إلی قولہ تعالٰی) وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج}1