اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
موضعِ اختلاف میں اَحوط پر عمل زیادہ مناسب ہے: باقی عاملانہ تقریر یہ ہے کہ موضعِ اختلاف (اختلاف کی جگہ) میں اَ۔َحوط (زیادہ احتیاط) پر عمل مناسب ہے، تو دس دراہم2 سے کم کا جواز تو مختلف فیہ (جائز ہونا تو اختلافی مسئلہ) ہے، اور دس درہم کا جواز متفق علیہ(جائز ہونے پر سب کا اتفاق) اس لیے اَ۔َحوط یہی ہے۔ اور یہ احتیاط ایسی ہے جیسے نصابِ سرقہ(چوری کے نصاب) میں ایک قول رُبع دینار یعنی اڑھائی درہم ہے، اور ایک قول دس درہم، پس رُبع دینار نصاب مختلف فیہ ہوا، اور دس درہم متفق علیہ، پس دس ہی درہم لینا اَ۔َحوط ہے اور اس سے کم میں مختلف فیہ ہونے سے شبہ ہوگیا کہ موجبِ حد (حدِ شرعی واجب کرنے والا) ہے یا نہیں؟ اور شبہ دافعِ حدود ہوتاہے، اس لیے اس میں قطع نہ کرنا(ہاتھ نہ کاٹنا) اَ۔َحوط ہوا، پس مہر میں تو دس درہم کو اقلِ نصاب (کم از کم نصاب) ٹھہرانا اَ۔َحوط ہوا اور دس درہم نصابِ سرقہ ہونا یہ بھی وجداناً مؤید (عقلاً تائید کرنے والا) معلوم ہوتا ہے قولِ امام ؒ کا، کیوںکہ اس سے ایک عضو یعنی ہاتھ کی قیمت کا کم از کم دس درہم ہونا معلوم ہوا، تو بضعِ زن (عورت کے عضوِ مخصوص) کی قیمت بھی اس سے کم نہ ہوگی، وَتَفَطَّنَ لَہُ صَاحِبُ الْہِدَایَۃِ فِي الْہِدَایَۃِ۔ بہرحال احتیاط بہت سے بہت اس سے کم نہ کرنے کو مقتضی ہوگی، لیکن یہاں تک تو کمی کرنے کا بالاتفاق اختیار ہے، پھر زیادتی پر کیا مجبوری ہے؟ مہر زیادہ ۔ّمقرر کرنے کی دنیوی خرابیاں: اُوپر تو بیان تھا کثرتِ مہر کی دینی خرابی کا کہ فی نفسہٖ (اپنی ذات میں) بھی خلافِ سنت ہے اور پھر وہ سبب ہوجاتا ہے عدمِ قصدِ ادا (ادا نہ کرنے کاارادہ) جس پر اس شخص کو گناہ میں زانی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور اس کے علاوہ اس میں جو دنیوی خرابیاں ہیں وہ آنکھوں سے نظر آتی ہیں، مثلاً: بہت جگہ موافقت نہیں آتی اور زوجہ کے حقوق نہیں ادا کیے جاتے، مگر طلاق اس لیے نہیں دیتے کہ مہر زیادہ ہے، یہ لوگ دعویٰ کرکے پریشان کریں گے، پس کثرتِ مہر بجائے اس کے کہ عورت کی مصلحت کا سبب ہوتا اُلٹا اس کی ۔ُکلفت کا سبب ہوگیا، بعض عقلا اس کثرت میں یہی مصلحت سمجھتے ہیں کہ چھوڑ نہ سکے گا، مگر یہ نہیں سمجھتے کہ چھوڑ نہ سکنا ہر جگہ تو مصلحت نہیں، مثلاً: اس صورتِ مذکورہ میں اس میں کیا مصلحت ہوئی؟ اور مثلاً: بہت جگہ بعد طلاق یا موت دعویٰ ہوا ہے، اور چوںکہ تعداد میں لاکھوں تک ہوا ہے تمام جائیداد سب کی نذر ہوجاتی ہے، اور زوج یا اس کے ورثا اس کی بدولت نان شبینہ (رات کے کھانے