اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یلازمہ من القرب کالصلاۃ والصوم والحج والعتق ونحوہا)۔ اور ان عباداتِ مقصودہ کے عمل میں لانے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں: ایک بدون نذر کے، اور دوسری بعد نذر کے، اور اوّل صورت افضل ہے دوسری سے، اور مقبول بہ مقابلہ فاضل وافضل کے اولیٰ بالترک ہوتاہے، پس نہی عن النذر اس درجے میں ہے، تو یہ منافی نہیں اس کے مامور في درجۃ التوسل بہ إلی الطاعات المقصودۃ (یعنی طاعاتِ مقصودہ کے لیے وسیلہ بننے کے درجے میں) ہونے کے اس حدیث میں۔ یہ تو عمل کی اصلاح ہے۔ اور ایک عقیدے کی اصلاح ہے کہ عوام کی طرح یوں نہ سمجھو کہ نذر کرنے کو اس کارروائی میں کچھ خاص دخل اور اثر درجہ مزعومہ عوام کاہے، اور اگر نذر نہ ہوتی تو یہ کام نہ ہوتا، کام تو ہرحال میں اس طرح ہوتا جس طرح ۔ّمقدر تھا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی بلکہ اور اسبابِ طبعیہ یا دعا جن کا اثر مشاہدہ وسمع سے ثابت ہے، نذر میں اتنا اثر بھی ہونے کے لیے دلیل کی حاجت ہے اورظاہراً یہ حدیث بھی اس کی نفی کررہی ہے، ورنہ نہی نہ ہوتی بلکہ مثل دوا و دعا اس کی ترغیب ہوتی اور اس میں بھی مثل ان کے تبدیل قدر کے شبہ کے جواب میں یہ ارشاد ہوتا: وذلک من القدر۔ اور یہ بھی تقدیر میں سے ہے۔ مقصود حضورِ نبوی ﷺ کا یہ ہے کہ نذر کے دباؤ سے خیر کرنا بخل ہے، بلا نذر خیر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ الخ اور اگر شکریۂ کارروائی میں خیر کرنے کی نیت ہو تو زبان سے کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ دل میں رکھے اور موقع پر عمل کرے، نیت کرنے سے نذر بھی نہیں ہوتی لأنہ مما یتعلق بالقول (یعنی اس کا تعلق قول سے ہے) کما في الدّر المختار، اور اصل مقصود بھی حاصل ہوجاتا ہے شارع کا بھی کہ نفسِ عبادت ہے، اور اس عامل کا بھی کہ اقتران، انجاحِ حاجت وقصدِ طاعت ہے، واللہ اعلم بالصواب۔خلاصہ مضمونِ سابق (تسہیل مضمونِ مذکور بہ رعایت تفہیمِ جمہور، بہ عنوانِ مسائل)