اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیکن یہ استدلال بہ چند وجوہ مخدوش (یہ دلیل چند وجوہ سے صحیح نہیں) ہے: اوّل: ممکن ہے کہ وہ حضرت عائشہؓ کی ۔ِملک کی جاتی ہو۔ اور اس کا یہ جواب دینا: اگر ایسا ہوتا تو حضور ﷺ فرمادیتے کہ میں اس ہدیہ کا مالک نہیں، اس لیے ضعیف ہے کہ ازواج کی درخواست تقسیمِ ہدایا نہ تھی، بلکہ مہدین (ہدیہ بھیجنے والوں) کو یہ فرمادینا کہ تخصیص (کسی کے لیے خاص) نہ کریں۔ ثانیاً: ممکن ہے کہ آپ ﷺ کی ۔ِملک ہو، مگر آپ تقسیم فرمادیتے ہوں۔ اور اس پر یہ شبہ ہو کہ اگر ایسا ہوتا تو شکایت کیوں ہوتی؟ اس طرح مدفوع ہے کہ ایسے موقع پر بھی ناگوار ہوتا ہے کہ ایک کے گھر سے سب جگہ پہنچے۔ ثالثاً: حنفیہ کے نزدیک آپﷺ پر یہ عدل واجب ہی نہ تھا، تو اس پر دوسروں کا قیاس نہیں ہوسکتا۔ اور اس پر یہ شبہ ہو کہ پھر آپ نے کیوں نہ فرمادیا، اس لیے معتد بہ (قابلِ ذکر) نہیں کہ آپ باوجود عدمِ وجوب کے اس کے ساتھ معاملہ وجوب کا سا فرماتے تھے۔ بہر حال ابنِ ۔ّبطال ؒ کا استدلال مخدوش ہے، اور ظاہر اطلاق دلائل سے وجوب ہی ہے۔ازواج میں سے سفر میں کسی کو ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی افضل ہے : 6 برابری شب باشی (رات گزارنے) میں حضر(گھر میں رہنے) میں ہے، اور سفر میں اختیار ہے جس کو چاہے ساتھ لے جائے، لیکن رفعِ شکایت (شکایت دور کرنے) کے لیے قرعہ ڈال لینا افضل ہے۔ اور ظاہراً یہ اس صورت میں ہے جب تک قرار (سکون) سے قیام نہ ہو، ورنہ حالتِ قیام کا حکم مثل حکمِ حضر کے ہوگا، دوسرے ۔ُعلما سے بھی تحقیق کرلیا جائے۔ 7 یہ برابری شب باشی میں اُس شخص کے لیے ہے جو شب میں فارغ ہو، اور جس کی رات ہی کی نوکری ہو، جیسے: چوکیدار تو اس کا دن مثل شب کے ہے۔ (د)۔دونوں بیویوں کی رہائش گاہ میں برابری واجب ہے : 8 مسکن (رہائش گاہ) میں جو برابری واجب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو جدا گھر دینا چاہیے، جبراً دونوں کو ایک گھر میں رکھنا جائز نہیں، البتہ اگر دونوں رضا مند ہوں تو ان کے رضامند ہونے تک جائز ہے۔