اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روز یاجس وقت ان کو فرصت ہوتی ہے تب بھی ان کو نماز کی طرف توجہ نہیں ہوتی، اگر یہ اَمر مانع تھا تو اس حالت میں تو یہ مانع مرتفع تھا، پھر ترک کی کیا وجہ؟ اس سے معلوم ہوا کہ اصلی مانع بے پروائی ہے جو اس حالت میں بھی مشترک ہے۔ دوسرے اگر یہ مانع ہوتا تو اگر وقت پر فرصت نہ تھی اور اس لیے ادا نہ پڑھ سکے تھے تو قضا کے لیے تو کوئی وقتِ خاص نہیں اور کسی نہ کسی وقت تو فرصت ہوتی ہے اس وقت میں قضا پڑھ لیتے، جیسے نماز کی پابندی والوں کی عادت ہے کہ اگر کسی روز وقت نکل جاتاہے تو اہتمام کرکے قضا پڑھتے ہیں۔ تیسرے اگر بے پروائی سبب نہ ہوتا تو اس کوتاہی پر قلق ہوتا، جیسا مطالبِ دنیا کے فوت ہونے پر ۔ّمدتوں حسرت ہوتی ہے، اس کی فکر لگ جاتی ہے، اس کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں، تدبیریں پوچھتے پھرتے ہیں، کیا ان بے نمازوں کو اس فکر، کوشش اور قلق و سوزش میں دیکھا جاتاہے؟ ان قرائن سے سببِ اصلی کی اچھی طرح تشخیص ہوگئی، اس کے علاج کے لیے دو اَمر کی ضرورت ہے۔نمازوں میں بے پروائی سے بچنے کا طریقہ : ایک یہ کہ تارکِ نماز کے وعیدوں میں غور کیا کریں کہ رسول اللہﷺ نے ایسے شخص کو کافر فرمایا ہے، خواہ تاویل ہی سے فرمایا ہو اور ایسے شخص کا دوزخ میں جانا، پھر فرعون، ہا مان، قارون کے ساتھ جانا ارشاد فرمایا ہے اور قیامت میں سب سے اوّل ۔ُپرسش نماز ہی کی ہوگی اور ان وعیدوں کی تقویت کے لیے دوزخ کے حالات پڑھا اور سنا کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ بے پروائی جاتی رہے گی۔ دوسرا اَمر یہ کہ اپنے نفس پر جبر کرے کہ بدون ۔ّہمت کے کیسا ہی آسان کام ہو دُشوار ہوجاتا ہے اور جبر کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کسی کو اپنے اُوپر مسلط کردے کہ وہ زبردستی اس کو وقت پر اُٹھاکر کھینچ کر نماز پڑھوا دیا کرے۔ دوسری صورت یہ کہ نماز کے ترک ہونے پر کچھ بھی جرمانہ اپنے نفس پر ۔ّمقرر کرے، جس کی مقدار اتنی ہو کہ نہ بہت قلیل ہو کہ نفس کو کچھ ناگواری ہی نہ ہو، نہ بہت کثیر ہو کہ اس کا ادا کرنا مشکل ہوجائے، جب نماز ترک ہو وہ جرمانہ مساکین کو دے دیا کریں اور یہ صورت جرمانے کی سنت کے موافق ہے کہ نسائی1 کی روایات میں ترکِ جمعہ وجماع فی الحیض پر ۔ّتصدق کا اَمر آیا ہے، دوسروں سے جرمانہ لینا بوجہ حدیث: أَلَا لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِیئٍ إِلَّا بِطِیْبِ نَفْسٍ مِنْہُ۔