اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تقریر جواب کی ظاہر ہے کہ اس وقت بھی میں نے اولاد کے خیال سے نہیں کیا، اور نہ اقتضائے عمر (عمر کے تقاضے) سے کیا، اسباب مذکورئہ بالا سے طبیعت میں ایک قوی تقاضا پیدا ہوا جس میں بلا قصد (بغیر ارادے کے) بہت سے دقیق مصالح بھی پیدا ہوگئے، اور عجب نہیں کوئی اولاد بھی ہوجائے، چناںچہ میں نے اس تقاضے کے قلب میں آنے کے وقت دُعائے استخارہ کے ساتھ دینی کتابوں سے تفاؤل (نیک فال کا حصول) بھی کیا، گو میں تفاؤل کو مؤثر نہیں سمجھتا، اور نہ ایسا سمجھنا جائز ہے، مگر محض تقویتِ رجاء (تقویتِ اُمید) کے لیے تفاؤل چند بار کیا، اس آیت کا مضمون ہر بار میں نکلا: {رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَاَنْتَ خَیْرُ الْوٰارِثِیْنَ} 1 اے میرے ربّ! مجھ کو لاوارث مت رکھیو (یعنی مجھ کو فرزند دے دیجیے کہ میرا وارث ہو) اور سب وارثوں سے بہتر آپ ہی ہیں۔ واللہ اعلم! اتفاقی بات ہے، یا اشارہ ہے عطائے اولاد کی طرف، چناںچہ اس کے بعد کی تحریر میں آںعزیز کو اس بات کااحساس ہوگیا، چناںچہ لکھا ہے:’’لیکن ان شرعی مصلحتوں اور حکمِ خداوندی کی باریکیوں کو دنیاوی اُمور پر ترجیح دینا بڑا کام ہے جو دنیا داروں اور خاص کر مستورات سے ممکن نہیں۔‘‘ چناںچہ اس میں احساسِ جواب کے ساتھ دنیا داروں اور مستورات کی ایک درجے میں معذوری بھی بیان کی ہے، اس کی نسبت یہ ہے کہ درجۂ حال میں ترجیح دینے کا کسی کو مکلف بھی نہیں بنایا، یہ تو ایک موہبتِ اِلٰہیہ (اللہ تعالیٰ کی عطا)ہے، جس کو عطا ہو۔حدودِ شرعیہ میں قولاً وفعلاً تجاوز نہ کرنے کا سب کو حکم ہے : لیکن اس قدر کا سب کو مکلف بنایا ہے کہ حدودِ شرعیہ سے قولاً وفعلاً تجاوز نہ کریں، اور تجربے سے ثابت ہے کہ اس تحفظِ حدود میں حق تعالیٰ نے یہ اثر دیا کہ حزن و تشویشِ طبعی( طبعی فکروغم) بھی اس قدر ضعیف ہوجاتا ہے کہ بالکل کالعدم، ورنہ وہ کم بخت برابر ہی تازہ ہوتا چلا جاتا ہے، ۔ُجہلااس نکتے کو نہیں سمجھتے اور تجاوز عن الحدود (شرعی حدود سے بڑھنے) کو اپنے مرض کا علاج سمجھتے ہیں، جو اِن اشعار کا مصداق ہوتا ہے: ہر چہ کردند از علاج واز دوا رنج افزوں گشت و حاجت ناروا بے خبر بودند از حالِ دروں