اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنی وسعت سے زیادہ مہر مقرر نہیں کرنا چاہیے : سو اس کا تدارک ظاہر ہے کہ ادا کرنے کی ۔ّمصمم نیت (پکی نیت) رکھی جائے، مگر تجربہ اور وجدان شاہد ہے کہ بعادتِ اکثر (اکثر عادت کے مطابق) یہ ۔ّمصمم نیت اسی عمل سے ہوسکتی ہے جس پر عادتاً قدرت ہو، ورنہ نیت کا محض تخیل (خیال) ہوتاہے، تحقّق (وقوع) نہیں ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ جس شخص کو سو روپیہ دینے کی قدرت نہ ہو وہ عادتاً لاکھ سوا لاکھ، بلکہ دس ہزار، پانچ ہزار دینے پر بھی قادر نہیں، جب قادر (ادائیگی کی طاقت رکھنے والا) نہیں تو بحکمِ ۔ّمقدمۂ مذکورہ (مذکورہ ۔ّمقدمے کے مطابق) وہ اس کی ادا کی بھی نیت نہ رکھے گا، پس اگر ایسے شخص کا اتنا مہر ۔ّمقرر ہوا تو وہ ادا کی نیت نہ رکھنے کے سبب لا محالہ (ضرور) اس وعید کا محل (موقع) بنے گا، پس نیت اد اکے تحقّق کی صورت میں بنا بر تقریر ِمذکورہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وسعت سے زیادہ مہر ۔ّمقرر نہ کیاجائے، اور چوںکہ وسعت اکثر لوگوں کو اکثر زمانوں قلیل (کم) ہے، اس لیے اَسلم و اَ۔َحوط طریقہ(زیادہ سلامتی والا اور محتاط طریقہ) یہی ٹھہرا کہ مہر قلیل ہو۔احادیث میں مہر زیادہ مقرر کرنے کی کراہت اور کم مقرر کرنے کی ترغیب آئی ہے : پس مہر کا کثیر تعداد میں ۔ّمقرر کرنا ایک کوتاہی ہے، جس پر پہلی کوتاہی ملزوم عادی (عام طور پر پائی جانے والی) مر۔ّتب ہوتی ہے، اسی واسطے حدیثوں میں مہر زیادہ ٹھہرانے کی کراہت (ناپسندیدگی) اور کم ٹھہرانے کی ترغیب (پسندیدگی کی طرف توجہ)آئی ہے۔ چناںچہ حضرت عمر ؓ نے خطبے میں فرمایا کہ مہروں میں زیادتی مت کرو، کیوںکہ اگر یہ دنیا میں ۔ّعزت کی بات یا اللہ کے نزدیک تقوے کی بات ہوتی تو سب سے زیادہ اس کے مستحق جنابِ رسول اللہﷺ تھے، مگر رسول اللہﷺ کی تو کسی بی بی کا اور اسی طرح کسی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں ہوا۔‘‘ (ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتاہے، اور ایک درہم تقریباً چار آنہ چار پائی کا)۔ اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’عورت کا مبارک ہونا یہ بھی ہے کہ اس کا مہر آسان ہو۔‘‘1 اورایک حدیث میں ہے کہ’’اچھا مہر وہ ہے جو آسان اور قلیل ہو۔‘‘ (کنز العمال: ص: ۲۴۸) اور حدیث میں ہے کہ’’آسانی اختیار کرو مہر میں۔‘‘ (کنز:ص ۲۴۹) اور اگر حضرت عمر ؓ کی روایت پر کسی کو عجوزہ (بڑھیا) کے معارضۂ مشہورہ (مشہور اعتراض) کے بعد حضرت عمر ؓ کے رُجوع کا شبہ ہو تو جواب اس کا یہ ہے کہ یہ رُجوع اس کی ترجیح یا اس کی ضد ہے، کراہت نہیں ہے، بلکہ پہلے حضرت عمر ؓ کی یہ رائے ہوگئی تھی کہ اس کو ایک قانون بنادیں،