اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مبغوض عنداللہ ہے، اور یہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہوا کہ ۔ّحظِ آخرت تو فوت ہوا ہی، کوئی ۔ّحظِ دنیا بھی نصیب نہ ہوا، {خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ} کا مصداق بنا۔دُعا غلاموں کی طرح کرنی چاہیے نہ کہ شکایت کرنے والوں کی طرح : ایک کوتاہی دوسرے قسم کے معالجے یعنی دُعا و ختم یا صدقہ ونذر میں ہوتی ہے کہ ان میں حدودِ شرعیہ کو ملحوظ رکھنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی، مثلاً: دُعا بہ صیغۂ شکایت ہوتی ہے، اللہ میاں سے کہا جاتاہے: ’’اے اللہ! کیا ہوگا؟ بس میں تو بالکل ہی تباہ ہوجاؤںگا، یا تباہ ہوجاؤں گی، یہ بچے کس پر ڈالوں گی؟ بس جی میرا تو کہیں ٹھکانا ہی نہ رہے گا، اے اللہ! ایسا نہ کیجیو‘‘ گو یا شکایت الگ کی جاتی ہے اور رائے الگ دی جاتی ہے۔ استغفراللہ! کیا حق تعالیٰ کا یہی ادب ہے، یہی عظمت ہے؟ دُعا کرو غلاموں کی طرح، اجازت ہے، بلکہ محبوب ہے، آگے رضا بالقضاء واجب ہے ع ہرچہ آں خسرو کند شیریں بود ختم پڑھا جاتاہے بعض جگہ تو غیر مشروع الفاظ سے، مثلاً: ’’یا شیخ عبد القادر شیئًا للّٰہ‘‘ اور بعض جگہ اس سے غامض خرابی مضمر ہوتی ہے کہ الفاظ تو مشروع، مگر اس کا ثواب بزرگوں کو اس عقیدے سے بخشا جاتا ہے کہ وہ خوش ہوکر کچھ سہارا لگادیں گے، یا بجائے امداد کے دُعا ہی کا اعتقاد ہوا، مگر اس طرح سے کہ وہ دُعا ان کی ردّ ہوہی نہیں سکتی، جس کے متعلق احقر نے بہ قدرِ ضرورت ’’القاسم‘‘ کی جلد ۳، نمبر ایک کے پرچے میں صفحہ۱۴ پر کچھ مفصل بھی لکھ دیا ہے۔صدقے کے متعلق کوتاہیاں : صدقے میں چند کوتاہیاں ہوتی ہیں: بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ کسی بزرگ کے نام کا کھانا پکوا کر تقسیم کرتے ہیں یا کھلاتے ہیں اور مثل ختمِ مذکور عنقریب کے اس میں بھی اعتقاد امدادِ رُوحانی ان بزرگ کے متعلق رکھتے ہیں، جس کی نسبت ابھی لکھا گیا ہے، بعض لوگ کچھ غلہ یا بکرا وغیرہ شب بھر مریض کے پاس رکھ کر اور بعض لوگ اس کا ہاتھ لگواکر خیرات کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس تلبس سے یا اس لمس سے مریض کی تمام بلائیں گویا اس صدقے کی طرف منتقل ہوجاتی ہیں، پھر اس کے دینے کے ساتھ وہ بھی چلی جاتی ہیں، سو یہ اعتقاد محض خلافِ شرع ہے۔ صدقہ دینا جو ایک فعل ہے اس کا اثر حدیث میں آیا ہے کہ بلا دفع ہوجاتی ہے، اس فعل کے قبل خود جرم صدقہ میں لپٹ