اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو تمام عمر کے لیے نان ونفقہ کا مقید۔ّ کیا جاتاہے اور عورت کو تمام عمر کے لیے نکاح سے محبوس ( مقید۔ّ ) کیا جاتاہے، پہلا فعل گویا مباح کا ایجاب (قبول کرنا) ہے اور دوسرا فعل گویا مباح کی تحریم (حرام کرنا)ہے، اور دونوں میں عملاً اعتداء عن الحدود (حدود سے تجاوز کرنا)ہے، جوکہ نصاً مذموم ہے۔طلاق میں اِفراط و تفریط دونوں مذموم ہیں : اور اُسے عار سمجھنے کی فرع یہ ہے کہ بعض اوقات زوجہ سے شرعاً تمتع جائز نہیں رہتا، مگر اس کو طلاق نہیں دی جاتی، پس وہ نہ اس کے کام کی رہی نہ دوسرے کے کام کی، مثلاً: یہ عورت زوج پر حرمتِ مصاہرت کے سبب حرام ہوگئی اور حرمتِ مصاہرت سے نکاح مرتفع (ختم) نہیں ہوتا، صَرَّحَ الْفُقَہَائُ (۔ُفقہا نے اس کی تصریح کی ہے)، مگر تمتع بھی اس سے درست نہیں رہتا، ایسی صورت میں بجز طلاق کے دے دینے کے اور کوئی صورت نہیں، مگر اس عار (شرم) کے سبب طلاق نہیں دیتے،پھر یا تو اس سے متمتع ہوتے رہتے ہیں اور یا اس کو معلقہ کرکے گھر میں ڈالے رکھتے ہیں، یہ تو اہلِ افراط کی حالت ہے۔ بعضے لوگ اس کے مقابلے میں یہ تفریط کرتے ہیں کہ طلاق دینے سے ذرا نہیں رُکتے، اُن کے لیے ادنیٰ (معمولی) بہانہ کافی ہو جاتاہے، حالاںکہ بلا سببِ قوی اس کی اجازت نہیں، حدیث: أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ۔ 1 یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔ اسی صورت میں ہے، اور ایسی ہی طلاق سے اس آیت میں منع فرمایا ہے: {فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاًط} 1 أَيْ لَا تَطْلُبُوْا الْفِرَاقَ، فَسَّرَ بِہِ الشَّامِيُّ۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنا شروع کردیں تو اُن پر بہانہ مت ڈھونڈو۔ شامی نے اس کی تفسیر جدائی کا طریقہ اختیار کرنے سے کی ہے۔ اور ایسی طلاق بلا وجہ میں اتنے ممنوعات (۔ُبرائیوں) کا ارتکاب ہے، حماقت وسفاہت رائی و کفرانِ نعمتِ نکاح و ایذا رسانی بہ زوجہ و بہ خاندانِ زوجہ و بہ اولادِ زوجہ1 (کَذَا فِيْ رَدِّ الْمُحْتَارِ)۔ اور زوجہ کا ذلیل اور بدنام کرنا علاوہ برآں (اس کے علاوہ)،