اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں اگر میاں بی بی میں بہت ۔ّمدت تک رنجش کے سبب بے تعلقی رہی، خصوصاً جب کہ وہ دوسری جگہ ناجائز طور پر بیٹھ رہی تو خود بہ خود طلاق ہوجاتی ہے، سو یہ بھی غلط ہے، گو اس فعل سے معصیت (گناہ) ہے، مگر طلاق واقع نہیں ہوتی، مرد کو اختیار ہے جب چاہے اس عورت کو زوجیت کے طور پر قبضہ کرلے۔شوہر کے مرض الوفات میں طلاق پانے والی عورت کو میراث سے حصہ ملے گا : ایک غلطی بابِ طلاق میں بہت دقیق ہے، جو ایک مسئلے کے نہ جاننے سے واقع ہوتی ہے جوکہ بہت کم معلوم ہے، خصوص اس کے بعض جزئیات سے تو بعض طالبِ علم بھی بے خبر ہیں، اوّل وہ مسئلہ سمجھ لیا جائے پھر اس غلطی پر متنبہ کیا جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مرضِ وفات میں اپنی مدخولہ بی بی (جس سے ہم بستری ہوچکی ہو) کو بدون اُس کی رضا مندی کے طلاقِ بائن دے دے۔1 اور وہ شخص ۔ّعدت گزرنے کے قبل مرجائے تو ظاہراً تو شبہ ہوتا ہے کہ جب طلاقِ بائن سے نکاح کا علاقہ قطع ہوگیا تو اس کو شوہر سے میراث نہ ملے گی، مگر حکمِ شرعی یہ ہے کہ اس صورت میں وہ عورت میراث پائے گی، گویا شریعت نے اس کا انتظام کیا ہے کہ کوئی شخص ایسی حالت میں اپنی بی بی کو اس کے حصۂ میراث سے محروم نہ کرسکے، پس ایسی حالت میں اگر طلاق دی تو احتمال ہوسکتا تھا کہ شاید دوسرے وارثوں کے مقابلے میں بی بی کو محروم کرنے کے واسطے طلاقِ بائن دی ہو، تاکہ وہ زوجہ نہ رہے اور اس لیے زوجیت کی میراث نہ پائے، اس لیے شریعت نے ۔ّعدت کو قائم مقام نکاح کے قرار دے کر اس عورت کو میراث دلوائی ہے، اور ایسے طلاق دینے والے کو فَارٌّ بِالطَّلَاقِ (طلاق دے کر میراث سے بھاگنے والا) کہتے ہیں۔ اور وہ غلطی یہی ہے کہ لوگ اس عورت کے استحقاقِ میراث (میراث کے مستحق ہونے) کو نہیں جانتے اور اس مسئلے کی جس جزئی سے بعض طلبہ بھی بے خبر ہیں وہ جزئی بدون مرض کے غلبۂ احتمالِ ہلاک (ہلاکت کا غالب گمان ہونے) کی ہے، مثلاً: شیوع (پھیلاؤ) طاعون کا ہورہا ہے، مگر مطلقاً نہیں، بلکہ خود اس شخص کے محلے میں اس قدر زور شور ہو کہ ہر وقت خود اس کے مبتلائے طاعون ہونے کا خطرہ لگا رہتا ہو، اسی طرح جس کے لیے سزائے موت کا حکم ہوچکا ہو یا وہ لام پر گیا ہوا ہو اور غالب قرائن سے اندیشہ موت کا ہو، سو چوںکہ یہ حالتیں مرض کی نہیں، اس لیے ان حالتوں کا حکم بعض کو معلوم نہیں،مگر چوں کہ غلبۂ ہلاک ان میں اور حالتِ مرض موت میں مشترک ہے، اس لیے ان کا حکم بھی مثل مرضِ موت ہی کے ہے، حتیٰ کہ ایسے شخص کے وصایا بھی صرف ثلث (ایک تہائی) میں جاری ہوں گے۔