اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تربیت آج کل کی تہذیب کانام نہیں : ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعض لوگ تربیت کو بھی ضروری سمجھتے ہیں، مگر اس کی حقیقت تہذیبِ عرفی سمجھتے ہیں، چناںچہ اسی کا اہتمام بھی کرتے ہیں، گو وہ شریعتِ مقدسہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، حتیٰ کہ میں نے ایک معز۔ّز تعلیم یافتہ کا جوکہ طبیب بھی تھے بہ چشم خود یہ واقعہ دیکھا کہ اُن کی گود میں ان کا ایک بچہ تھا، ایک صاحب اُن سے ملنے آئے تو انھوں نے اس بچے کو حکم دیا کہ ان کو سلام کرو، یہاں تک تو نہایت خوبی کی بات تھی، اس بچے نے کہا’’السلام علیکم‘‘ تو حکیم صاحب کی فرماتے ہیں: ’’یوں نہیں کہتے، اس طرح کہو: آداب عرض‘‘ وہ ملاقاتی صاحب دین دار آدمی تھے، بہت بگڑے اور کہا: ’’افسوس! بچہ تو سنت کے موافق عمل کرے، اور آپ اس کو بدعت کی تعلیم دیں‘‘۔ تو وجہ اس کی یہی ہے کہ تہذیبِ شرعی ان کی نظر میں کوئی چیز نہیں، حالاںکہ مسلمان کو جس تہذیب کا اَمر ہے وہ تہذیبِ شرعی ہے۔آج کل کی ’’تہذیب‘‘ کو تعذیب کہنا بجاہے : بلکہ دونوں تہذیبوں کی حقیقت اور ان کے آثار میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبِ عرفی جوکہ تہذیبِ شرعی کے منافی ہو، اس قابل بھی نہیں کہ اس کو ’’تہذیب‘‘ کہا جاسکے، بلکہ احقر تو اس کو ’’تعذیب‘‘ (عذاب) کہا کرتا ہے، کیوںکہ حقیقت اس کی تکلف ہے، اور تکلف سے جو۔ُ کلفتیں ہوتی ہیں وہ ظاہر ہیں، بلکہ تکلف کو ’’تکلف‘‘ کہتے ہی اس لیے ہیں کہ اس میں۔ُکلفتوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے، اُمرا کی مجالس میں اس کا مشاہدہ ہوسکتاہے۔حقیقی تہذیب، تہذیبِ شرعی کانام ہے : حقیقی تہذیب، تہذیبِ شرعی ہی ہے، چناںچہ متبعینِ سنت جو اس تہذیب کے عامل ہیں وہ جس راحت میںہیں اس کا مشاہدہ محققین ۔ُعلما و۔َمشایخ کی مجلس میں کرلیا جائے، اور آخری بات یہ ہے کہ اگر تہذیبِ شرعی میں ۔ُکلفت بھی نہ ہو، اور تہذیبِ شرعی میں راحت بھی نہ ہو تب بھی جب مسلمان کے لیے ایک منہی عنہ (ممنوع) ہے اور دوسری مامور بہ (جس کا حکم دیا گیا ہے) تو مسلمان پر مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک کا ترک، دوسرے کا فعل لازم ہوگا، جیسے اگر نماز کے لیے اُٹھنے میں مشقت ہو، اور گرم بستر میں لیٹے رہنے سے راحت ہو، مگر اس مشقت کو اس راحت پر ترجیح ہوگی، پھر اس کا بھی مشاہدہ کھلی آنکھوں ہر عامل کرلے گا کہ یہ مشقت اور یہ راحت چند روزہ ہے، پھر تو ایسا ذوقِ صحیح عطا ہوگا کہ موافقتِ شرع کے برابر کسی چیز میں راحت، اور مخالفتِ شرع کے برابر کسی چیز میں ۔ُکلفت نہ ہوگی، مولانا ؒ اسی کو فرماتے ہیں: ’’چند روزے جہد کن باقی بخند‘‘ (یعنی چند روز کوشش کر، بقیہ اَیام ہنستا رہ، یعنی