اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کسی مقام کی غلط تقریر کرنا یا کسی سائل کو غلط مسئلہ بتلانا جائز نہیں : 2عن سمرۃ بن جندب والمغیرۃ بن شعبۃؓ قَالَا: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ : مَنْ حَدَّثَ عَنِّیْ جنابِ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میری طرف سے کوئی بات بیان کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ تو جھوٹ ہے، وہ جھوٹاہے۔ بِحَدِیْثٍ یَرٰی أَنَّہُ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبَیْنِ۔ 1 اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تقریر میں غلط مطلب بتلادینا یا مستفتی کو غلط مسئلہ بتلادینا یہ حرام ہے، جیسا بعض مدرّسین ومفتیین کی عادت ہے کہ طالبِ علم یا سائل سے اپنا جہل چھپانے کے لیے غلط سلط ہانک دیتے ہیں اور اگر طالبِ علم قبول نہیں کرتا اور کچھ خدشہ کرتا ہے، کبھی مغالطات وتلبیسات سے، اور کبھی غضب اور سب وشتم سے اس کوخاموش کردیتے ہیں، اتنا کہنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ ’’یہ مقام ہماری سمجھ میں نہیں آیا، پھر سوچیں گے۔‘‘ یا یہ کہ دوسرے مدرّس سے خود پوچھ لیںیا اس طالبِ علم ہی کو پوچھنے کی اجازت دے دیں، اس سے عار آتی ہے، حالاںکہ یہ کوئی عار کی بات نہیں، جنابِ رسول اللہﷺ سے زیادہ کون عالم ہوگا، آپﷺ نے بہت سے سوالوں پر ’’لاأدري‘‘ فرمادیا اور جب وحی نازل ہوئی اُس وقت بتلادیا، اور واقعی جب احاطہ کل علوم کا خاصہ حق تعالیٰ جل شانہٗ کا ہے تو بعض چیزوں کا نہ جاننا ممکن کے لوازم سے ہے، تو اس لازم کا اگر اقرار کرلیا تو کون سی نئی بات ہوئی؟ بلکہ واقع میں تو غیر معلومات عدد میںمعلومات سے زیادہ ہی ہیں، قال تعالٰی: {وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا}1 اور تم کوتو بہت تھوڑا علم دیا گیا۔ ایک حکایت: میرے ایک ابتدائی کتب کے اُستاد علیہ الرحمۃ نے اپنی ایک حکایت بیان فرمائی تھی کہ انھوں نے کسی معلم