اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے، یہ ہے کہ بعضی عورتیں کسی وقت خوش ہوکر بلا کسی شر ط یا قید کے مہر معاف کردیتی ہیں، پھر دوسرے وقت ناخوش ہوکر کہہ دیتی ہیں کہ ’’میںاپنی معافی کو واپس لیتی ہوں‘‘ سو اس صورت میں مہر معاف ہوجائے گا،اور اس کہنے سے وہ عود نہ کرے گا، البتہ اگر معافی میں کوئی شرط ہو، اور مرد نے اس شرط کے خلاف کیا تب البتہ وہ معافی نہ رہے گی۔معافیٔ مہر کو اگر شوہر تسلیم نہ کرے تو مہر معاف نہیں ہوگا : ایک غلطی یہ ہوتی ہے کہ عورت کے معاف کرنے کے وقت مرد اس کو قبول نہیں کرتا، اور جب دوسرے وقت عورت مطالبہ کرتی ہے تو اس پچھلی معافی کو یاد دلا کر اس سے تمسّک (یعنی دلیل) پکڑتا ہے۔ سو سمجھ لینا چاہیے کہ معافی کو اگر مخاطب رد کردے تو وہ معافی کالعدم ہوجاتی ہے، یہ آخر کی دو غلطیاں اسی وقت ایک پیش شدہ واقعے سے ذہن میں آئیں۔ایک شبہ کا اِزالہ : اب مضمونِ طلاق کے متعلق ایک مضمون بہ عنوان ’’رفع اشتباہ‘‘ لکھ کر اس بابِ طلاق کو ختم کرتا ہوں، وہ یہ کہ اُوپر جو مبغوضیتِ طلاق کا مضمون ذکر کیا گیاہے اس پر ایک شبہ وارد ہوتا ہے، وہ یہ کہ اہلِ تاریخ نے بالاتفاق نقل کیا ہے کہ حضرت امام حسن ؓ عورتوں کو کثرت سے طلاق دیتے تھے، تو ایسے امام جلیل الشان ہوکر اس فعلِ مبغوض کا کیوں ارتکاب فرماتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مبغوضیت اس وقت ہے جب ضرورت نہ ہو، اور ان کو ضرورت تھی، وہ ضرورت یہ تھی کہ ان کو طبعی طور پر جدید عورتوں کی رغبت تھی، اور جدید نہ رہنے کے وقت اُن سے بے رغبتی ہوجاتی تھی، اور چار سے زیادہ جمع نہ کرسکتے تھے، تو اب بجز طلاقِ قدیمہ و نکاحِ جدیدہ کے کیا صورت ہوسکتی ہے؟ نیز مبغوضیتِ طلاق میں وحشت ِزوجہ (بیوی کی پریشانی) کو بھی دخل ہے، اور ان کے اس فعل سے منکوحات کو وحشت نہ ہوتی تھی۔ چناںچہ احقر نے کسی مقام پر کہ اس کی تعیین یاد نہیں رہی، لکھا دیکھا ہے کہ عورتیںیہ خیال کرکے کہ ’’اُن کے بدن پر بچپن میں جنابِ رسول اللہﷺ نے جابجا پیارکیا ہے تو بلا حائل ان کے بدن کو مس کرنے سے برکت نصیب ہوگی‘‘ باوجود ان کے کثر تِ طلاق کے پھر اُن کے نکاح سے انکار نہ کرتی تھیں، اور ان عورتوں کے ساتھ ان کے اولیا بھی اس کو ناگوار نہ سمجھتے تھے، یہاں تک کہ ایک بار حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’اے اہلِ کوفہ! حسن (ؓ ) سے عورتوں کو مت بیاہو، کیوںکہ وہ کثرت سے طلاق دیتے ہیں۔‘‘ قبیلۂ ہمدان میں سے ایک شخص بولا: ’’واللہ! ہم ان سے ضرور نکاح کریں گے،