اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے کوتاہ نظری سے کام لیا، واقعات کے حقائق میں غور نہیں کیا۔ اصل یہ ہے کہ ان سب خرایبوں کی ذ۔ّمہ دار تعلیم نہیں ہے، بلکہ طرزِ تعلیم ہے، یا نصابِ تعلیم ہے، یا طرزِ عمل ہے، یا سوئِ تدبیر ہے، یعنی یا تو یہ ہوا کہ ایسی کتابیں نہیں پڑھائی گئیں جن سے احکامِ حرام و حلال اور تفصیلِ ثواب وعقاب اور طریقۂ تہذیبِ اخلاق معلوم ہو اور جس سے خوف وخشیت و معرفت و عظمتِ حق حاصل ہو، ان کو صرف حرف شناس بناکر چھوڑدیا ہے، انھوں نے اپنی رائے سے اردو کے مختلف رسالوں کا مطالعہ کرکے لکھنے پڑھنے کی مہارت بڑھائی ہے اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ کا لقب پاکر اس طرح تعلیم کو بدنام کیا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ محض حرف شناسی کو نہ تعلیم کہہ سکتے ہیں اور نہ حرف شناسی اصلاحِ اعمال واحوال کی کفالت کرسکتی ہے۔ اور یا یہ ہوا ہے کہ باوجود نصابِ تعلیم کے مفیدوکافی ہونے کے اس نصاب کے مضامین کو قلب میں جمانے کی کوشش نہیں کی گئی اور عمل کی نگرانی نہیں کی گئی، مثلاً: اس کی ضرورت ہے کہ جس روز کسی لڑکی نے یہ مسئلہ پڑھا کہ غیبت گناہ ہے، اس کے بعد اگر وہ غیبت کرے توفوراً اس کو یاد دلادے کہ ’’دیکھو! تم نے کیا پڑھا تھا، اس کے خلاف کرتی ہو۔‘‘ اور مثلاً: ان کو پردے کی ضرورت یاپست آواز سے بولنے کی تاکید پڑھائی گئی اورپھر اس میں کوتاہی یا غفلت کا مشاہدہ ہوا،فوراً اس کو روکنا چاہیے۔ یا ان کو حرصِ مال وزیور کی مذمت پڑھائی تھی، پھر انھوں نے کسی تکلف کے کپڑے یا غیر ضروری زیور کی ہوس کی توفوراً ان کو ۔ّمتنبہ کیا جاوے، اسی طرح اُمید ہے کہ اخلاقِ فاضلہ واعمالِ صالحہ کا ملکہ ان میں پیدا ہوجاوے گا۔ اور یا یہ ہوا ہے کہ ان کی خود طبیعت اور ۔ِطینت ہی میں صلاحیت اور قابلیت نہیں ہے، تو اس صورت میں (تربیت نا اہل راچوں گرد گان برگنبد ست) کا، اور شعر : شمشیر نیک ز آہن بد چوں کند کسے ناکس بہ تربیت نشود اے حکیم کس کامضمون ہے۔ یہ گفتگو تو خود ان کے احوال و اعمال کے متعلق تھی اور جو افعال دوسرے شریر لوگوں کے شمار کرائے ہیں ان کا امتداد سوئِ تدبیر سے ہوتا ہے، اس کے انسداد کی اچھی تدبیر یہ ہے کہ واسطے کے ساتھ نہایت سختی کی جاوے اور اپنے مردوں کو بالکل صاف اطلاع دے دی جاوے۔ غرض مفاسد کے اسباب یہ ہیں، جب یہ ہے تو اس میں عورتوں کی کیا تخصیص ہے؟ یہی اسبابِ فساد اگر مردوں کو پیش آویں، وہ بھی ایسے ہی ہوں گے، پھر کیا وجہ کہ عورتوں کو تعلیم سے روکا جاوے اور مردوں کو تعلیم میں ہر طرح کی آزادی