اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر یہ کہ انجیل پڑھاتے ہیں جس کی وجہ سے صرف تقلید اہلِ یورپ کی ہے، یعنی ان کے نصابِ تعلیم میں شایستگی کو منحصر سمجھنا اس کی بنا ہے، مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم میں اور اُن میں اگر رُسوم و عادات و طبائع و خواص کابھی فرق نہ ہوتا، تاہم سب سے بڑا فرق مذہب ہی کا ہے کہ ہم مذہبِ اسلام کا التزام کیے ہوئے ہیں اور وہ یا تو کوئی مذہب نہیں رکھتے اور زیادہ اُن میں ایسے ہی ہیں اور یا ہمارے مذہب کے ۔ُمغائر دوسرا مذہب رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں یا تعلیمِ مذہبی بالکل نہ ہوگی، صرف زبان کی تعلیم ہوگی یا دنیوی معلومات کی تعلیم ہوگی اور یا دوسرے مذہب کی تعلیم ہوگی۔ بہرحال ان لوگوں کو اس تعلیم کی تو ایک خاص مبنی ہے، لیکن ہم لوگ اگر ان کی تعلیم کو اختیار کریں تو اس کا کیا مبنی ہے جب غرض تعلیم سے ان کی اور ہے جس کا ابھی ذکر ہوا اور ہماری غرض اور ہے جس کا مختصر بیان طبقۂ اُولیٰ کی اصلاحِ خیال کے ذکر میں ہوا ہے، یعنی اصلاحِ عقائد واعمال ومعاملات ومعاشرت واخلاق اور یہ غرض منحصر ہے علمِ دین میں، تو ظاہر ہے کہ ہمیں ان کی تعلیم کا اختیار کرنا ہر طرح بے ربط ہے، البتہ اگر کسی کو تحصیلِ معاش کی بھی حاجت واقع ہونے والی ہو تو بعد علومِ دینیہ کے اس کو ان علوم کا حاصل کرلینا بھی مضایقہ نہیں جو اس زمانے میں معاش کا موقوف علیہ ہو، جیسے اس وقت انگریزی وتاریخ جغرافیہ وغیرہ، باقی انجیل کی اس شخص کو بھی ضرورت نہ ہوگی اور ظاہر ہے کہ کسبِ معاش کی حاجت صرف مردوں کو ہوتی ہے اور عورتیں اوّل اس وجہ سے کہ ان کا نان ونفقہ مردوں کے ذ۔ّمے ہے، دوسرے اس وجہ سے اسلام میں پردے کی تاکید ہے اور وہ ابوابِ خاصہ معاش کے جو خاص علوم پر موقوف ہیں، پردے کے ساتھ حاصل نہیں کیے جاسکتے، اس لیے عورتوں کے لیے تعلیم بالکل فضول اور ان کے وقت کی اضاعت ہوگی، بلکہ فضول سے متجاوز ہوکر ہرطرح مضر ہوگی جیساکہ عنقریب ان مضار کا بیان بھی آوے گا۔ بہرحال یہ علوم جن کا لقب ’’تعلیمِ جدید‘‘ ہے عورتوں کے لیے ہرگز زیبا نہیں، البتہ فنونِ دنیا میں سے بہ قدرِ ضرورت لکھنا اور حساب اور کسی قسم کی دست کاری کہ اگر کسی وقت کوئی سرپرست نہ رہے تو ۔ّعفت کے ساتھ چار پیسے کماسکے یہ مناسب ہے، رہا قصہ شایستگی کا، جس کا دل چاہے تجربہ کرکے دیکھ لے کہ علمِ دین کی برابر دنیا بھر میں کوئی دستور العمل اور کوئی تعلیم شایستگی اور تہذیب نہیں سکھلاتا۔ چناںچہ ایک وہ شخص لیجیے جس پر علمِ دین نے پورا اثر کیا اور ایک وہ شخص لیجیے جس پر تہذیبِ جدید نے پورا اثر کیاہے، پھر دونوں کے اخلاق اور معاشرت ومعاملے کا موازنہ کیجیے تو آسمان و زمین کا تفاوت پائیے گا، البتہ اگر تصنع و تکلف کانام کسی نے ’’تہذیب‘‘ رکھ لیا ہو تو اس کی یہی غلطی ہوگی کہ ایک مفہوم کا مصداق اس نے غلط ٹھہرالیا اور اگر کسی کے ذہن میں اس وقت کوئی دین دار ایسا آیا جس میں تہذیبِ حقیقی کی کمی ہو، اس کی وجہ یہ