اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خود اس میں مشغول ہوں جب کہ اس کو ہوش نہ ہو، بلکہ دنیا کے فضول قصوں میںخصوص ان بکھیڑوں میں جس کی ضرورت بعد میں ہوگی، مگر ابھی سے مشغول ہوجاتے ہیں، بعض جگہ تو کوئی اس کے پاس بھی نہیں رہتا اور وہ تنہا ہی ختم ہوجاتا ہے، سب اِدھر اُدھر مال ومتاع پر قبضہ کرنے کی فکر میں بھاگتے پھرتے ہیں اور بعض جگہ اس لیے اس کے پاس نہیں پھٹکتے کہ اس کی بیماری لگ جانے کا خوف ہوتاہے۔ اوّل تو بعض محققین کے نزدیک نفسِ تعدیہ ہی غلط ہے، دوسرے بعض قول پر کہیں ہوا بھی تو بلا اذنِ خالق نہیں ہوتا، اور نہ اذنِ دائم ہوتاہے، چناںچہ مشاہدہ شاہد ہے کہ اکثر جگہ کچھ بھی نہیں ہوتا، پھر کتنی سنگ دلی کی بات ہے کہ اپنے کو تو ضررِ محتمل سے بھی بچایا اور اپنے ایک بھائی مسلمان (یعنی اس مریض کو) ضررِ متیقّن میں مبتلا کیا، کیوںکہ اس طرح تنہا رہ جانے سے اس کی بعض ضروریات میں فروگزاشت ہونے سے اس کو تکلیف بھی ہوگی اور اس کی دل شکستی بھی ہوگی اور ان کے طرزِ عمل سے یہ معلوم کرکے کہ میں مرضِ ۔ّمتعدی مہلک میں گرفتار ہوں، مایوس بھی ہوجاوے گا، تو کتنی کلفتیں اس پر جمع ہوئیں اور ان محتاط صاحب کی ایک وہمی احتیاط ہوئی، تو ایسی احتیاط خاک ڈالنے کے قابل ہے۔ اور افسوس تو یہ ہے کہ جو طبقہ اِدّعائے ہمدردی کے نعرے لگاتا ہے وہی اس لغو احتیاط میں زیادہ حصہ لیتاہے۔ یہ تو ان کی شکایت تھی جوکہ مریض کے لیے خواہ پاس رہ کر یا اس کو تنہا چھوڑ کر اس کے متوجہ الی اللہ کرنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ بعض لوگ ان کے مقابلے میں دوسری طرف غلو کرتے ہیں، یعنی بہ زعمِ خود اس کو متوجہ الی اللہ کرنے میں اس قدر ۔ّمتشددانہ برتاؤ کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے ہی پڑجاتے ہیں کہ وہ ذرا غافل ہوا اور اس پر تقاضا شروع ہوا کہ ’’کلمہ پڑھ ناں! استغفار پڑھ ناں!‘‘ اور اگر اس کو ہوش نہ ہو تو برابر اس کے سر رہتے ہیں جب تک کہ وہ ان کا حکم نہ مانے اور اگر ہوش آگیا اور اس نے پڑھ بھی لیا تو اس پر کفایت نہیں کرتے، پھر پڑھواتے ہیں، چاہتے ہیں کہ آموختہ کی طرح پڑھتا ہی رہے، دم نہ لے، اللہ بچاوے اس جاہلانہ زہد ِخشک سے۔ اس بات میں ۔ُعلما کا ارشاد یہ ہے کہ اگر وہ ہوش میں ہو تو اس کو بہ سہولت کلمہ واستغفار کی طرف متوجہ کریں اور جب وہ ایک بار پڑھ لے، توبہ کرلے، پھر چھوڑدیں۔ پھر جب تک وہ کوئی دنیا کاکلام نہ کرے، دوبارہ پڑھنے کو نہ کہیں، وہ مرض میں اور نزع میں پریشان ہوتا ہے، اگر اس کے قلب میں تنگی پیدا ہوکر کلمہ واستغفار سے(نعوذباللہ) کراہت وناگواری ہوئی یا خداناخواستہ منہ سے انکار نکل گیا تو کس درجہ امرِ منکر ہے، گو اس وقت کا ایسا فعل بھی قواعد ِشرع سے قابلِ اعتراض نہیں، کیوںکہ وہ وقت پورے شعور اور پورے اختیار کا نہیں ہے، لیکن تاہم عام دیکھنے سننے والوں کی نظر میں اس