اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی طرف مشغول ہوتا ہے، حالاںکہ وہ وقت خالص توجہ الی اللہ کا ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ اگر وہ خود بھی اس عالم کی طرف بلا ضرورتِ شرعیہ (مثل وصیت وغیرہ) متوجہ ہوتا تو اس کی توجہ کو حق تعالیٰ کی طرف منعطف ومنصرف کیا جاتا، نہ کہ خود ہی اس ظلمت کدے کی طرف اس کو متوجہ کرنے کا سبب بن جاویں۔ اور اگر ان کلمات میں کچھ الفاظ اس میّت کے غلو فی المدح کے ہوئے کہ تو ایسا تھا اور ایسا تھا تو ایک ضرر میّت کا (جیسا کہ حدیث میں ہے) یہ ہے کہ فرشتے اس کو دھکیلتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ کیا ایسا ہی تھا؟ غرض اس نامعقول حرکت سے پریشانی درپریشانی ہوتی ہے۔ اور مثلاً: بعضی عورتیں اس وقت اس کی بی بی کو سامنے لاکر کھڑا کرتی ہیں، یا کبھی بی بی صاحبہ خود ہی تشریف لاکر کھڑی ہوتی ہیں اور پوچھا جاتاہے کہ ’’اس کو یا مجھ کو کس پر چھوڑے جاتے ہیں؟‘‘ اور اس غریب کو جواب پر مجبور کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات اس کے بچوں کو سامنے لاتی ہیں کہ ’’ان کا کون ہوگا؟‘‘ یا یہ کہ ’’ان کو پیار تو کرلو، ان کے سر پر ہاتھ تو رکھ دے۔‘‘ جس سے وہ غریب تو پریشان ہوتا ہی ہے اور توجہ علی المخلوق کا ضرر الگ پہنچتا ہے، لیکن بچے کس قدر دل شکستہ اور نا اُمید ہوجاتے ہیں، یہ حماقت شعار اتنا نہیں سمجھتیں کہ اس وقت کا تو مقتضا یہ تھا کہ اگر خود بھی بچوں کو یاد کرتا تو اس کو کہا جاتا کہ تم حق تعالیٰ کی طرف خیال رکھو، البتہ اگر بہت ہی یاد کرے تو سر سری طور پر سامنے کردیں تاکہ اس کا دل ان میں اٹکا نہ رہے، لیکن اگر خود یاد نہ کرے تو ہر گز اس کو یاد نہ دلاوے۔ اور یہ بھی مقتضا تھا کہ بچوں کو وہاں سے ہٹادیا جاتا تاکہ وہ پریشان نہ ہوں اور اگر وہ گھبراتے تو اپنے آنسو پونچھ کر ان کو دلاسا دیا جاتا کہ ’’تم کیوں گھبراتے ہو؟ اس سے زیادہ ہم تمہارے شفیق اور خدمت کرنے والے موجود ہیں۔‘‘ یاد رکھنا چاہیے کہ تطییبِ قلبِ مسلم اور تسلیۂ محزون عبادتِ عظمیٰ ہے۔ اسی طرح بیوی کی تسلی کرتے کہ ’’بھائی! لاعلاج کا علاج ہمارے قبضے سے باہر ہے، اور اس کا علاج تمہاری پریشانی سے بھی نہیں ہوسکتا، باقی تمہاری راحت رسانی اور دل جوئی کے لیے ہم حاضر ہیں، تم اس قدر پریشان نہ ہو۔‘‘ غرض اس میں ایک تو یہ پریشانی ہے، دوسرے وہی مخلوق کی طرف اس کو متوجہ کرنا، جس کا اُوپر ذکر ہوا۔ اسی طرح بعض مرد بھی جو زنانہ مزاج کے ہیں، وہ بھی یہی ناشائستہ حرکت کرتے ہیں، اسی واسطے سخت ضرورت اس امر کی ہے کہ قربِ موت کے وقت میّت کے پاس عاقل دین دار لوگ ہوں، اگر گھر کی عورتیں اتفاق سے ایسی ہوں تو ان کے رہنے کا مضایقہ نہیں، ورنہ مردوں میں جو ایسے لوگ ہوں اُن کو پاس رہنا چاہیے، اور وہ ان سب اُمور کی احتیاط اور انتظام رکھیں۔ بعضے لوگ یہ کرتے ہیں کہ بدفالی کے خیال سے یا قلتِ مبالات بالدین کی وجہ سے نہ اس وقت یٰسین پڑھیں اور نہ پڑھناگوارا کریں یا اس طرف اِلتفات نہ کریں اور نہ کلمے کا اہتمام کریں، نہ اس کو متوجہ کریں جب کہ اس کو ہوش ہو اور نہ