اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میّت کی کتنی رُسوائی ہے، جس کا سبب یہ زہد ِخشک بنا ہے۔ اور اگر وہ بالکل بے ہوش ہے تو اس کو کچھ پڑھنے وڑھنے کے لیے نہ کہیں، اس کے قریب پکار پکار کر سورئہ یٰسین شریف اور کلمہ کلام وغیرہ پڑھتے رہیں تاکہ اگر قدرے اِدراک ہویا ہوجاوے تو قلب سے تو اِدھر متوجہ رہے اور اسی توجہ میں خاتمہ ہو۔ بعضے آدمی اس سے بڑھ کر یہ کرتے ہیں کہ اخیر وقت تک اس سے باتیں کرانا چاہتے ہیں اور ’’بڑھ کر‘‘ اس لیے کہا کہ ان زاہدانِ خشک نے تو اس سے کلمہ ہی پڑھوانا چاہا تھا جوکہ دین کاکام ہے، انھوں نے دنیا کی باتیں کرانا چاہا، یعنی جہاں وہ ذرا بے ہوش ہوا اس کو پکارتے ہیں کہ ’’میاں فلانے! ذرا آنکھ تو کھولو، مجھ کو تو دیکھو، میں کون ہوں؟ تم کیسے ہو؟ کچھ کہوگے؟ کسی بات کو دل چاہتا ہے؟‘‘ اور اسی طرح خرافات ولغویات میں اس کو دِق کرتے ہیں، ان عقل کے پتلوں سے کوئی پوچھے کہ یہ ان باتوں کا وقت ہے؟ اگر اس کا مرض مرضِ موت نہیں ہے اور اچھا ہوجاوے گا تو اچھا ہونے کے بعد جتنی چاہے باتیں کرلیجیو، اس وقت اس کو کیوں تکلیف دیتے ہو؟ مرض میں ایسا تعب ہوتا ہے کہ بات کرنا تو بڑی بات ہے، بات سننا، بلکہ کسی طرف دیکھنا، خیال کرنا گراں گزرتا ہے اور یہ بزرگ اس سے مجلس آرائی کی توقع رکھتے ہیں۔ اور اگر اس کا مرض مرضِ موت ہے تو ایسی باتیں کرنا اور بھی ۔ُبرا ہے کیوںکہ قطع نظر تکلیف سے، یہ سمجھنا چاہیے کہ اب اس کو دنیا میں بہت تھوڑا وقت ملے گا سو اس کو تو اچھے ۔َمصرف میں ۔َصرف کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی ایسی بات ہو جو شرعاً ضروری ہے، مثلاً: کسی امانت کو پوچھا جاوے کہ ’’تم نے کہاں رکھ دی ہے؟‘‘ یا قرضہ اور لین دین کے بارے میں پوچھا جاوے جس کا حال بدون اس کے دوسرے ذریعے سے معلوم نہیں ہوسکتا یا کافی نہیں ہوسکتا یا اور اسی قسم کا کوئی حق واجب ہو اس کے متعلق پوچھ پاچھ کرنے کا مضایقہ نہیں، بلکہ ضروری ہے بشرطے کہ اس کی زیادہ تنگی اور تکلیف نہ ہو جو تحمل سے زائد ہو، سو ایسی بات در حقیقت دنیا کی بات نہیں، ادائے واجب ہے جو طاعت کی فردِ اعظم ہے۔ اور چوںکہ صورتاً دنیا ہی کی بات ہے اس لیے بہتر ہے کہ ایسی بات کا جواب لینے کے بعد پھر تہلیل واستغفار وغیرہ پڑھوادیں بہ شرائط مذکور سابقاً۔ بعض لوگ قریبِ مرگ کو رُو بہ قبلہ کرنے کا مسئلہ سن کر یہ کرتے ہیں کہ اس کا تمام بدن اور منہ پکڑکر بیٹھ جاتے ہیں اور اگر وہ ذرا نزعِ رُوح میں بدن یا گردن کو حرکت دے جو حرکتِ اضطرار یہ ہوتی ہے تو پھر مروڑ تروڑ کر رُخ بدل دیتے ہیں۔ سو خوب سمجھ لینا چاہیے اس مسئلے کا یہ مطلب نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب اس پر شاق نہ ہو یا وہ بالکل بے حس وحرکت ہوجاوے اس قدر رُو بہ قبلہ کردیں، نہ یہ کہ اس سے کشا کشی کرکے اس کو تکلیف پہنچاویں۔ (درمختار)