اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرایہ پر لیتاہے، اور وہ بھی خوش معاملہ ہے، مگر اس کو دینے میں اس کی مملوکہ زمین چھوٹتی ہے، تو یہ شخص محض اپنی مصلحت کے لیے وقف کا نقصان کرتاہے۔ بعض اوقات یہ منتظم تمام آمدنی اس کی خود ہی کھاجاتاہے، پھر کبھی تو اوّل ہی سے نیت اس کی ادا کی نہیں ہوتی، اورکبھی اوّل میں نیت اچھی ہوتی ہے مگر پھر ٹلتے ٹلتے تساہل ہوکر بے فکری ہوجاتی ہے، اور وہ رقم ضایع ہوجاتی ہے۔ بعض متو۔ّلی منافع سے متجاوز ہوکرخود رقبۂ وقف میں ۔ّتصرفِ باطل کرتے ہیں، کبھی خوش نیتی سے مگر جہلِ احکام کے سبب، اور کبھی بدنیتی سے اول اس طور سے مثلاً اس وقف کے اچھے دام ملتے ہیں، اور اس کی نیت یہ ہے کہ ان داموں سے اور اچھی زمین لے کر اس کو وقف کردیں گے، پھر کبھی کبھی وہ روپیہ بھی ضائع ہوجاتا ہے، اور وہ وقف مفت میں برباد ہوتا ہے، یا اس کے عوض اس سے اچھی زمین ملتی ہے، حالاںکہ وقف کا مبادلہ بالکل باطل ہے، البتہ جہاں اس کا انکار ہی نہ چلے تو بالکل چھوڑدینے سے بدل ہی لے لینا کافی ہے، اور اس طور سے کہ اس پر مالکانہ تصرّف کرنے لگے، حتیٰ کہ کبھی اس کو رہن یا بیع بھی کردی، ہزاروں اوقاف ان خائنوں کی بدولت بے نام وبے نشان ہوگئے، یا اگر معلوم بھی ہے تو ان کا اِستخلاص بہ وجہ رقمِ کثیر و وقتِ کثیر کے ۔َصرف پر موقوف ہونے کے دُشوار ہوگیاہے۔ افسوس ہے! بعض مسلمانوں نے مسجدوں کے ساتھ استعمالاً و بیعاً گھروں کا سامعاملہ کرلیا ہے، اور بعض کوتاہیاں اولادِ واقف کی طرف سے ہوتی ہیں، اور وہ کوتاہیاں وہ سب ہیں جو ابھی منتظم کی کوتاہیوں کی فہرست میں مذکور ہوئیں، اور بعض ان سے زائد بھی ہیں، اور زائد پر قادر ہونے کا سبب یہ ہوجاتاہے کہ عرفاً اولاد واقف کو عام لوگ بہ نسبت اجنبی متو۔ّلی کے وقف میں ۔ّتصرف کرنے کا زیادہ مستحق سمجھتے ہیں، مثلاً: لوگوں کو ایسے قبرستان میں دفن کرنے سے روکنا یا کسی کو اپنے باپ دادا کی بنائی ہوئی مسجد میں نہ آنے دینا یا اس کی شکستگی کی حالت میں خود تو بہ وجہ عدمِ استطاعت کے اس کی مر۔ّمت نہ کرسکنا، یا بے پروائی کے سبب نہ کرنا، اور اوروں کو بہ وجہ عار اور سبکی کے اجازت نہ دینا، حتیٰ کہ وہ اسی طرح اوّل منہدم ہوجاتی ہے، پھر یہی لوگ اس کا ملبا بیچ کر کھاتے ہیں حتیٰ کہ وہ منہدم ہوجاتی ہے پھر اس کی زمین بیچ لیتے ہیں خواہ اس میں مجالسِ فسق ہونے یا کوئی غیر مسلم اس میں گھر بناکر پاخانہ تک بھرا کرے، جو عار اس فضیحت کا سبب ہوئی ہے۔ اسی کے حق میں کہاجاسکتاہے: اِخْتَارَ النَّارَ عَلَی الْعَارِ۔ عار کے مقابلے میں آگ کواختیار کرلیا۔