اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اس حساب غلط لگانے کی ایک اور باریک مثال ہے، وہ یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص کے پاس سو روپے کے برابر وزن میں چاندی کا زیور ہے، اور قیمت اتنی چاندی کی بہ وجہ ارزانی اَسی روپے ہے، تو اکثر لوگ اس اسی روپے کا چالیسواں حصہ یعنی دو روپے دے دیتے ہیں، حالاںکہ ہم جنس سے زکوٰۃ ادا کرنے میں صنعت اور سکہ کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوتا، پس اس کے ذ۔ّمے اڑھائی روپیہ بھر چاندی واجب ہے، اگر روپیہ دیا تو وہ چاندی کے حساب میں شمار ہوگا اس لیے اڑھائی روپے دینے میں زکوٰۃ ادا ہوگی دو روپیہ دینے سے آٹھ آنہ بھر چاندی اس کے ذ۔ّمہ اور رہی، اور اگر اڑھائی روپے دینے میں خسارہ سمجھے تو اس کی دو صورتیں اور ہیں: ایک یہ کہ روپیہ نہ دے خود چاندی اڑھائی روپیہ بھر دے دے، اور وہ مسکین اس کو بیچ کر کارروائی کرے گا، دوسرے اس سے بھی سہل یہ ہے کہ دو روپے کے بالکل پیسے ہی پیسے کہ جس میں چاندی کی دونی تک نہ ہو مساکین کو دے دے، کیوںکہ ان پیسوں کی چاندی اڑھائی روپے بھر آسکتی ہے، اور خلافِ جنس ہے اس لیے ان پیسوں کی قیمت اڑھائی روپے بھر چاندی کے برابر سمجھی جائے گی، اور زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ ایک مثال حساب غلط ہونے کی بہت ہی باریک ہے، وہ یہ کہ اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ بہ وجہ اس کے کہ رمضان ہی تک میں ایک ذخیرہ ثواب برابر ستر فرض کے ہے، رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالتے ہیں، اورپھر رمضان ہی سے سلسلہ حساب کا رکھتے ہیں، پھر کبھی تو ایسا ہوتاہے کہ نصاب کے مالک ہونے کی تاریخ سے جو سال شروع ہوا ہے وہ رمضان کے تین چار ماہ پہلے مثلاً ختم ہوگیا تھا، تو اسی شخص نے رمضان شریف سے حساب رکھنے کے لیے ان تین چار ماہ کی زکوٰۃ بھی دے دی، پھر آیندہ کے لیے رمضان سے رمضان تک حساب جاری رکھا۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ رمضان سے تین چار ماہ بعد سال ختم ہوتا ہے، تو یہ رمضان میں زکوٰۃ ادا کرکے اپنے کو جلدی سبک دوش سمجھ لیتا ہے، مگر غلطی اس میں یہ ہوتی ہے کہ جب رمضان میں یہ شخص زکوٰۃ نکالتا ہے تو جتنا مال رمضان شریف میں اس کی ملک میں ہے یہ اسی کی زکوٰۃ نکالتا ہے، حالاںکہ احتمال ہے کہ جو ختمِ سال اس کا واقعی ہے اس میں نصاب اس وقت سے زیادہ ہو، اور زکوٰۃ واقع میں اسی زیادہ کے حساب سے واجب ہوگی تو اس طور پر سے حساب کچھ زیادہ زکوٰۃ اس کے ذ۔ّمہ رہ جائے گی۔ اور اس طرح سے یہ حساب غلط ہوجائے گا، مثلاً: اس کا سال رجب میں ختم ہوتا تھا، اور اس وقت اس کے پاس ایک ہزار روپے تھا، جس کی زکوٰۃ پچیس روپیہ ہوتی ہے، اور رمضان شریف میں اس کے پاس آٹھ سو روپے رہ گئے، جس کی زکوٰۃ بیس روپے ہوتی ہے، تو اب اگر اس شخص نے اسی وقت کا نصاب دیکھ کر بیس روپے ادا کیے، تو پانچ روپے اس کے ذ۔ّمہ رہ